Tarana_e_Nadwa

A beautiful taran_e_Darul uloom Nadwatul Ulama, Lucknow

Пікірлер: 31

  • @rabiasiddiqui8323
    @rabiasiddiqui83233 жыл бұрын

    Masha Allah kya khub avaz h💝ko chulyny Vale 👌👌👌👌👌👌👌bhut he dil ksh 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🏆🏆🏆🏆🏆🏆🏆

  • @mdmaaz2124
    @mdmaaz21243 жыл бұрын

    Ismail kii khoobsurat aawaz Bhai guzra huaa poora zamana yaadvaagaya

  • @mohammadishtiyaq8823
    @mohammadishtiyaq88232 жыл бұрын

    ماشاءاللہ بہت عمدہ ہے

  • @ziaullahkhan5191
    @ziaullahkhan51913 жыл бұрын

    Masha Allah bhai bohot acha...

  • @asadmadni2542
    @asadmadni25422 жыл бұрын

    بہت خوب ماشاء اللہ

  • @mohdismail6315
    @mohdismail63153 жыл бұрын

    yaadi maazi azab h ya rab

  • @hafizbdruddujahafiz5532
    @hafizbdruddujahafiz55323 жыл бұрын

    Good morning my beautiful Nadwa

  • @hindhind4570
    @hindhind45705 жыл бұрын

    Nadwatul ulamaye zindabad

  • @shadmasheikh8449
    @shadmasheikh84496 жыл бұрын

    Kya awaaz hai masha allah👌👌👌⚘⚘⚘⚘🌷🌷🌷😁😁😁

  • @nasehakhtar786
    @nasehakhtar7865 жыл бұрын

    Masha Allah bahut hi dilkash awaz h

  • @JavedKhan-ou6pl
    @JavedKhan-ou6pl6 жыл бұрын

    Purani yad taza ho gayi

  • @jafarkhan8122
    @jafarkhan81227 жыл бұрын

    masha allah beautiful

  • @zulfeqaralithegreatsingero503
    @zulfeqaralithegreatsingero5037 жыл бұрын

    ماشاءاللہ

  • @sheikhmukarram7478
    @sheikhmukarram74787 жыл бұрын

    جلسہ استقبالیہ 2017 دور نظامت محمد معظم سندیلوی

  • @asfakali9712
    @asfakali97126 жыл бұрын

    mashallah

  • @abdullahghazi5156
    @abdullahghazi51567 жыл бұрын

    دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو شاید مجلس شوری میں آئے مہمانوں کے لیے الاصلاح کا استقبالیہ ہے....

  • @syednoohere

    @syednoohere

    7 жыл бұрын

    yes

  • @ashfaqkhan7791
    @ashfaqkhan77915 жыл бұрын

    Masha Allah

  • @bhattaamir4449
    @bhattaamir44495 жыл бұрын

    MashaAllah

  • @armaanmaliky9790
    @armaanmaliky97907 жыл бұрын

    byutiful

  • @mohdahsan1228
    @mohdahsan12285 жыл бұрын

    mai na bhee admission laini thi

  • @sheikhmukarram7478
    @sheikhmukarram74787 жыл бұрын

    معظم بھائ دور بہت اجھا رہا

  • @mohdahsan1228
    @mohdahsan12285 жыл бұрын

    koi batawoo kaisai laini hai admission

  • @syednoohere

    @syednoohere

    5 жыл бұрын

    Go to darul uloom office

  • @shanalam8457
    @shanalam84575 жыл бұрын

    Padhne wale ka name?

  • @mohdismail6315

    @mohdismail6315

    3 жыл бұрын

    Ismail nadwi rampuri

  • @ruhullapurnavi1506
    @ruhullapurnavi15065 жыл бұрын

    Haqeeqat mai yahan ka mooti jai

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Жыл бұрын

    كل نفس ذائقة الموت ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے علامہ یوسف القرضاوی اصلا مصری تھے لیکن الإخوان المسلمون پر مصر کے ظالم و جابر اور امریکہ کے آلہ کار زر پرست حکمرانوں کے مظالم کی وجہ سے قطر میں پناہ گزیں ہوگئے تھے ۔ جامع ازہر سے ڈاکٹریٹ کی سند یافتہ تھے قطر میں میری ملازمت کے دوران وہ قطر یونیورسٹی میں شعبہ اسلامی اسٹڈیز کے صدر تھے ۔ حکومت قطر نے ان کو قطری شہریت دیدی تھی ۔ قطر کی شاندار اور مشہور مسجد عمر بن الخطاب میں جمعہ کا خطبہ دیتے اور نماز پڑھاتے تھے ۔ ان کا خطبہ بہت علمی اور مواد سے بھرا ہوتا تھا ۔ نماز کے بعد مصافحہ اور سلام کرنے کا موقع مل جاتا تھا ۔ ایک بار مسجد امیری میں ان کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھنے کا بھی موقع ملا تھا ۔ مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ قطر کی وزارہ اوقاف کی دعوت پر قطر تشریف لائے تھے تو علامہ القرضاوی ان سے ملنے ہوٹل میں تشریف لائے تھے ۔ اس طرح بارہا ان سے بڑے قریب سے ملنے کے مواقع ملے ۔ ان کی تصنیف فقہ الزکاہ پر انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ۔ ان کی ایک مشہور تصنیف ' الحلال والحرام ' علماء عرب میں بہت تنقید کا نشانہ بنی تھی ۔ علامہ القرضاوی عربی زبان و ادب کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ قادر الکلام شاعر بھی تھے ۔ وہ دوحہ قطر کی أمسية شعرية میں شریک ہوکر اپنا کلام سنایا کرتے تھے ۔ وہ ٩٦ سال کی طویل عمر گزار کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ اللہ ان کی لغزشوں سے درگزر اور ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنہ الفردوس میں جگہ عطا فرمائے امین آسماں تیری لحد پر شبنم افشاں کرے سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi47463 жыл бұрын

    عالم اسلام کی متفق علیہ شخصیت مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ علامہ یوسف قرضاوی جو مصری ہیں اور فی الحال قطر کے شہری ہین ، دوحہ مین اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ : " اگر عالم اسلام کسی شخصیت پر متفق ہوسکتا ہے تو وہ شیخ ابوالحسن علی ندوی شخصیت ہے "۔ اگر اس قول کی روشنی مین علامہ ندوی رحمہ عالم اسلام کے لیے ایک خاص نعمت اور رحمت تھی ۔ ہندستان میں بھی جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا تو وہی اس کو ختم کرنے کے لیے انہی کی طرف رجوع کیاجاتا تھا ۔ ان کا فیض تھا کہ کسی بحران کے وقت انہی کی ذات کام اتی اج ہند کی امہ مسلمہ اپنی تاریخ کے سخت دور سے گزر رہی ہے ۔ ایسی حالت میں ہمین ان کی یاد آتی ہے ۔ عالم اسلام مین ایک غیر متنازعہ سخصیت قرار دیا جانا بہت بڑی بات ہے ۔ عالم اسلام گونا گوں رنگون کا خوبصورت نقشہ ہے ۔ ان رنگون میں عرب و عجم دو اہم رنگ ہین ۔ ان مین ہر ایک کی اپنی خصوصیت اور منفرد شان ہے ۔ عالم عرب مین مصر کو اس کی قدیم تاریخ اور اسلامی علوم و ثقافت میں مرکزی مقام اور منصب قیادت حاصل ہے ۔ عجم کے مختلف رنگون میں ترکی ، ملائشیا اور پاکستان وغیرہ کی اپنی خصوصیت اور انفرادیت ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کی مختلف قومون کا کسی ایک شخصیت پر متفق ہونا بہت نازک مسئلہ یے ۔ ان گونا گوں رنگوں کے عالم اسلام میں علامہ یوسف قرضاوی یہ کہنا کہ شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی ذات ہی ایک ایسی شخصیت ہے جو کہ عالم اسلام کے سیاستداں علماء اور مفکرین تمام اختلافات کے باوجود ان کی ذات پر متفق ہوسکتے ہین ۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہان علامہ یوسف قرضاوی مصری ہیں ، اس پر عالم اسلام کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی الازہر ما رنگ بھی چڑھا ہوا ہے ۔ انہوں نے اس سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ہے ۔ وہ عربی زبان و ادب کے ماہر اور شاعر بھی ہین ۔ انہوں نے متعدد موضوعات پر عربی مین کتابین تصنیف کی ہین ۔ ان کی مشہور کتاب ' فقہ الزکوة ' پر انہیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا ۔ اپنی جوشیلی خطابت مین مشہور اور امہ مسلمہ کے لیے درد مند دل رکھتے ہیں ۔ عالمی سطح کے مشہور عالم دین اور مفکر اسلام اتنی عظیم شخصیت کا یہ کہنا کہ : " شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی شخصیت ایسی ہے کہ عالم اسلام ان پر متفق ہوسکتا ہے " یہ ایک ایسا مقام و مرتبہ ہے جسے اللہ جل شانہ کا خاص فضل ہی کہا جاسکتا ہے ۔ عالم اسلام مین غیر متنازعہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص جامع صفات ہو ، وہ مختلف علوم پر حاوی ہو اور اس کے اندر علمی تبحر ہو ، عصر حاضر کے تقاضون سے باخبر اور ، اس کی فکر عالی اور عالمی ہو وہ مقناطیسی شخصیت کا حامل ہو ۔ عالم اسلام مین وہ ہر اعتبار سے معتبر اور مستند ہو ۔ کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست علامہ ندوی رحمہ ہندستان کے معروف و مشہور دینی اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ اس خاندان میں سید احمد شہید رحمہ جیسے ولی اللہ اور مجاہد پیدا ہوئے ۔ ڈاکٹر سید محمود مرحوم کو حضرت سید احمد شہید رحمہ سے بہت محبت و عقیدت تھی ۔ وہ ان کو ہندستان کی جدو جہد آزادی کا اولین داعی اور قائد سمجھتے تھے ۔ علامہ ندوی رحمہ کی سب سے پہلی اردو تصنیف سیرت سید احمد شہید رحمہ تھی ۔ اس خاندان کے ایک بڑے بزرگ اور ولی اللہ شاہ علم اللہ ہیں ۔ رائے بریلی اس خاندان کا اصل وطن ہے ۔ دائرہ شاہ علم اللہ کے نام سے موسوم ہے ۔ علامہ ندوی رحمہ اپنی بہت سی تصانیف یہیں مکمل کیں ۔ آپ کے والد حکیم عبد الحی حسنی مرحوم ایک جلیل القدیر عالم دین ، عربی اور اردو زبان و ادب کے ادیب تھے ۔ عربی زبان میں ان کی تالیف ' نزھہ الخواطر ' آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ یہ علماء ہند اور مشاہیر کے حالات زندگی اور ان کے علمی کارناموں پر مشتمل ہے ۔ یہ ان کا عظیم علمی کارنامہ ہے ۔ جلیل القدر عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ تحریر کرتے ہیں کہ : " نزھہ الخواطر' کی قدر و قیمت مجھے اس کتاب ( مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت) لکھنے کے وقت جتنی ظاہر ہوئی اس سے پہلی نہیں ہوئی تھی ۔ اللہ کے اس مخلص بندے نے کمال کردیاہے ۔ سمندروں کو کھنگال گئے ہیں لیکن پتہ بھی نہ چلنے دیا ۔ خدا کرے ان کی اس محنت سے دنیا کو استفادہ کا موقع مل جائے ۔ایک انقلابی کام کرکے وہ چلے گئے ہیں "۔ آج ان کی یہ شاہکار تصنیف جو ڈر حقیقت ایک انسائیکلوپیڈیا ہے عالم عرب سے شائع ہوگئی ہے ۔ عرب علماء ، محققین اور مورخین نے اس کتاب دلپذیر کو بہت پسند کیا اور اس کی تحسین کی ۔ آپ دارالعلوم ندوة العلماء کے ناظم تھے ۔ ان کے بعد علامہ ندوی رحمہ کے بڑے بھائی ڈاکٹر عبد العلی مرحوم ندوی کے ناظم ہوئے ۔ اس خاندان کی تاریخ سے بر صغیر کے اہل علم و فضل اچھی طرح واقف ہیں ۔ اس لیے علامہ ندوی رحمہ بر صغیر خصوصا ہند بڑی عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ یہ ہے ان کی تعمیر شخصیت کا خشت اول ۔ دارالعلوم کے سب سے نمایاں تعلیم یافتہ اور فاضل بلکہ اس کے لیے سرمایہ افتخار و نازش سید سلیمان ندوی رحمہ تھے ۔ سید صاحب کی علمی زندگی کا سب سے نمایاں اور ممتاز پہلو طبقہ علماء میں ان کی جامعیت اور علوم و مضامین کا تنوع تھا ۔ علامہ ندوی رحمہ ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ : " ان کی ذات اور ان کی علمی زندگی میں قدیم و جدید سے واقفیت ، علمی تبحر اور ادبی ذوق ، نقاد و مورخ کی حقیقت پسندی اور سنجیدگی ، ادباء اور انشاء پروازوں کی شگفتگی اور حلاوت ، فکر و نظر کا لوچ اور مطالعہ کی وسعت اس طرح جمع ہوگئی تھی جو شاذ و نادر جمع ہوتی ہے "۔ " سید صاحب نے نصف صدی سے زیادہ علماء کی اس قدیم جامعیت کو زندہ و نمایاں رکھا اور دینی و علمی و ادبی حقلوں میں بیک وقت نہ صرف باریاب بلکہ اکثر صدر نشین رہے ۔ ان کی زندگی اور مختلف ذمہ داریاں جو انہوں نے مختلف وقتوں میں سنبھالیں خود ان کی جامعیت کا ثبوت ہیں " ۔ مجلس خلافت سلطان ابن مسعود کی دعوت پر مؤتمر اسلامی میں شرکت اور مسلمانان ہند کی ترجمانی کے لیے ایک وفد تشکیل کرتی ہے تو اس کی قیادت کے لیے ان سے زیادہ موزوں شخص نظر نہیں آیا جو عالم اسلام کے اس نمائندہ اور منتخب مجمع میں عربی میں اظہار خیال کی قدرت رکھتا ہو اور مسلمانان ہند کی دینی و علمی عظمت کا نقش قائم کرسکے "۔ ز (پرانے چراغ جلد اول : ص ٥٣ -- ٥٥) جارى ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمى

  • @SaifAliKhan-wp1lt
    @SaifAliKhan-wp1lt5 жыл бұрын

    ماشاءاللہ