Shan ul Haq Haqqee recites his ghazal پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں

شان الحق حقی
پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں
بھٹکا کے رہیں مجھ کو آوارہ گزرگاہیں
آلامِ زمانہ سے چھوٹیں تو تجھے چاہیں
مصروفِ مشقت ہیں حسرت سے بھری بانہیں
صحرا ہی سے گزری تھیں کھوئی گئی جو راہیں
بتلائیں گے یہ چشمے یہ بَن یہ چراگاہیں
شمشیر کی زد پر ہیں کچھ اور ہمیں جیسے
ہنگامِ تقاضا کیا، اے دل وہ جسے چاہیں
کیا روپ بدلتے ہیں تصویر میں ڈھلتے ہیں
آنکھوں میں رُکے آنسو سینے میں دبی آہیں
اب کون کہے تارا ٹوٹا تو کہاں پہنچا
آزاد کی ہر دنیا برباد کی سَو راہیں
اب نام غمِ دل کا تصویر و قلم تک ہے
طوفاں نے سفینوں میں ڈھونڈی ہیں پنہ گاہیں
تشہیرِ جنوں کہیے یا عرضِ سخن حقی
ارزاں ہیں مرے آنسو رُسوا ہیں مری آہیں
شان الحق حقی

Пікірлер: 3

  • @shahriyarkhan6077
    @shahriyarkhan607726 күн бұрын

    ایک نایاب ویڈیو

  • @SajidKhan-jg8bk
    @SajidKhan-jg8bk12 күн бұрын

    Bahut khoob ❤❤❤

  • @khursheedabdullah2261
    @khursheedabdullah22612 ай бұрын

    پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں بھٹکا کے رہیں مجھ کو آوارہ گزرگاہیں آلامِ زمانہ سے چھوٹیں تو تجھے چاہیں مصروفِ مشقت ہیں حسرت سے بھری بانہیں صحرا ہی سے گزری تھیں کھوئی گئی جو راہیں بتلائیں گے یہ چشمے یہ بَن یہ چراگاہیں شمشیر کی زد پر ہیں کچھ اور ہمیں جیسے ہنگامِ تقاضا کیا، اے دل وہ جسے چاہیں کیا روپ بدلتے ہیں تصویر میں ڈھلتے ہیں آنکھوں میں رُکے آنسو سینے میں دبی آہیں اب کون کہے تارا ٹوٹا تو کہاں پہنچا آزاد کی ہر دنیا برباد کی سَو راہیں اب نام غمِ دل کا تصویر و قلم تک ہے طوفاں نے سفینوں میں ڈھونڈی ہیں پنہ گاہیں تشہیرِ جنوں کہیے یا عرضِ سخن حقی ارزاں ہیں مرے آنسو رُسوا ہیں مری آہیں شان الحق حقی