introduction Maulana Ali Miya Nadwi By Maulana Salman Husaini Nadwi

Пікірлер: 9

  • @mdnaved5968
    @mdnaved5968 Жыл бұрын

    Allah maolana ko jannat me ala se ala mukam ata farmaye

  • @mdrahmannadvirahmannadvi1353
    @mdrahmannadvirahmannadvi13533 жыл бұрын

    ماشاءاللّٰہ بہت خوب اللّٰہ رب العزت ہمیں حضرت مولانا مرحوم کے مشن پرعمل کرنے کی توفیق دے آمین

  • @izharahmad9453
    @izharahmad94533 жыл бұрын

    Dil khush ho gya

  • @izharahmad9453
    @izharahmad94533 жыл бұрын

    Mashaallah..

  • @user-bd7fz4yu2n
    @user-bd7fz4yu2n3 жыл бұрын

    آمین ثم آمین

  • @saiyadreza5733
    @saiyadreza57333 жыл бұрын

    Masha Allah

  • @gaterahi
    @gaterahi3 жыл бұрын

    Mashaallah

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Жыл бұрын

    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف : ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين مسلمانوں کے زوال سے دنیا کو کیا نقصان ہوا علامہ ندوی رحمہ کا عالم عرب میں تعارف اور شہرت ان کی مذکورہ بالا تصنیف سے ہوئی ۔ 1944 کے زمانہ میں علامہ ندوی رحمہ کے دل میں اس کتاب کے لکھنے کا خیال آیا ، اس وقت ان کی عمر تیس سال سے زائد نہ تھی ، یہ خیال اور اس کا تقاضہ اس قدر ان پر غالب ہوا کہ انہوں اس پر لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور عربی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی ۔ علامہ ندوی رحمہ عربی زبان و ادب کے ماہر تھے اور عربی میں تحریر و تقریر پر ان کو پوری قدرت حاصل تھی ۔ وہ عالم عرب کو اسی کی زبان میں مخاطب کرتے تھے ۔ اگر عالم اسلام کا کوئی عالم دین اس زبان میں تحریر و تقریر میں مکمل قدرت نہیں رکھتا ہے تو علماء عرب میں مقبول نہیں ہوسکتا ہے ۔ وہاں کے بڑے بڑے اہل علم و فضل اسے سند قبولیت عطا نہین کریں گے اور اس کے بغیر عالم عرب میں کسی کی شخصیت مستند اور معتبر نہیں ہوسکتی ۔ علامہ ندوی رحمہ کی یہ کتاب پہلی بار قاہرہ ، مصر کے معروف ادارہ ' لجنة التأليف والترجمة والنشر ' قاہرہ سے شائع ہوئی تو بہت مقبول ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ۔ کیا عوام اور کیا خواص ، کیا شاہی و حکمراں طبقہ اور کیا علماء و مفکرین و مشاہیر عرب سب کو اس اہم ، تاریخی شاہکار تصنیف نے متاثر کیا ، اس نے ان کے اندر زندگی کی لہر پیدا کردی اور ان کے اندر جوش و جذبہ اور عزم و حوصلہ پیدا کردیا ۔ انہوں نے اس کتاب کو وقت کی ایک اہم ضرورت ، اور اسلام کی اہمیت وضرورت کو سمجھانے کے لیے ایک قابل قدر اور قابل تحسین کوشش قرار دیا ۔ مصر کے مشہور ادباء اور اہل قلم احمد امین ، ڈاکٹر محمد موسی اور سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ۔ شیخ احمد الشرباصی نے ' ابوالحسن علی الندوی ' صورة وصفية ' کے عنوان سے علامہ ندوی رحمہ کا بہتر تعارف کرایا ۔ سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر جو چند کتابین پڑھی ہین ، ان میں اس کتاب کو خاص مقام حاصل ہے یہ کتاب بڑی مدلل ، مربوط اور حقیقت پسندانہ علمی اسلوب میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اس موضوع کو اس کے اصول وکلیات کے وسیع دائرے اور اس کی صحیح روح کے مطابق پوری گہرائی سے سمجھا اور پیش کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ کتاب تاریخی ، اجتماعی اور دینی تحقیق کا ایک بہتر اور شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ اور اس کی تصویر کس طرح دنیا کے پیش کرنی چاہیے " ۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے عالم انسانی پر کیا منفی اثرات پڑے اور عالم انسانیت کو اس سے کیا نقصانات پہنچے ۔ یہ بہت اہم اور تاریخی نکتہ ہے جس کی اہمیت کو علامہ ندوی رحمہ نے سمجھا اور اسے بہت ہی مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ اسلام سے پہلے جب ایک اللہ کا تصور ، اس کی ذات پر ایمان اور اس کی عبادت سے انسانیت منحرف اور نا آشنا ہوچکی تھی اور ربانی تعلیم و تربیت کو بالکل فراموش کر چکی تھی جس کی وجہ سے دنیا کی تمام قوموں کی مذہبی اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور تمدنی حالات انتہائی خراب اور زبوں حالی کا شکار ہوچکے تھے ۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرانی تعلیمات و تربیت کے ذریعہ جزیرة العرب کے عربوں کو جہالت اور تاریکی سے نکال کر ان کی زندگی کو توحید کی اساس پر استوار اور بالکل بدل کر ان کے اندر قرآنی اخلاق پیدا کردیا ۔ ان کے ایمان و عقیدہ اور افکار و اعمال مین توحید کی اساس پر عظیم الشان انقلاب برپا کردیا ۔ امہ مسلمہ کا مقصد وجود : ساتوین صدی کی پہلی چوتھائی میں جو امہ مسلمہ رسول آخر الزمان کی تعلیم و تربیت سے وجود میں آئی وہ گزشتہ تمام نبوتوں ، رسالتوں اور امتوں کی وارث اور ان کا آخری نقش تھی ۔ ایمان و عقیدہ اور فکر و نظر کے اعتبار سے اللہ جل شانہ کے نزدیک انسانوں کی صحیح اور قابل قبول حالت یہی ہے ۔ یہ امہ جس مقصد اور نصب العین کے لیے نکالی گئی ہے وہ تاریخ کے تمام انبیاء اور پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کا اصل مقصد ہے ۔ كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ... ( آل عمران : ١١٠) تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کو حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو ۔ امہ مسلمہ کی تعلیم و تربیت مکمل ہونے کی گواہی اللہ جل شانہ نے خود قرآن میں دی ہے کہ وہ اب اس کی قابل ہوگئی ہے کہ اسے عالم انسانیت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ الذين إن مكنهم فى الأرض أقاموا الصلوة و أتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الأمور o ( الحج : ٤١) یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہہں زمین پر اقتدار تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ اہل ایمان جزیرة العرب سے نکل کر کرہ ارض کے ایک بڑے حصہ میں پھیل گئے اور اسلام کے نور سے دنیا کو منور اور اس کے عدل و مساوات پر مبنی تعلیمات سے دنیا کو روشناس کیا اور انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کے سامنے جدید اسلامی نظام ( New Islamic Order ) پیش کیا گیا ۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عطیم الشان انقلاب تھا ۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اللہ کے بندے بندوں کی عبادت اور غلامی سے نکل کر اللہ جل شانہ کی عبودیت اور غلامی میں داخل ہوکر آزاد ہوگئے ۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد انہیں حقیقی آزادی ملی ۔ تیئیس سالہ نبوت و رحمت کا عہد اور تیس سالہ خلافت راشدہ کے دور نے ایک بالکل نئی دنیا سے عالم انسانیت کو متعارف کرایا ۔ ہوئے احرار ملت جادہ پیما اس تجمل سے تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے انسانی علامہ اقبال رحمہ قرآنی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربیت سے روئے زمین میں ایک ایسی امت پیدا ہوئی جو عالم انسانیت کے لیے نمونہ عمل بن گئی اور ایک زمانہ تک یہ امت عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر فائز رہی ۔ لیکن جب یہ امت زوال پذیر ہوئی اور اس کا انحطاط شروع ہوا تو اقوام عالم کی سیادت و قیادت اس کے ہاتھوں سے نکل کر ان مغربی اقوام کے ہاتھوں میں آگئی جو اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم و نا آشنا تھے اور جن کا نقطہ نظر مادہ پرستی ، نفس پرستی تھا ، جو فکر آخرت اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے تصور سے نا آشنا تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی پرانی جاہلیت نئی شکل و صورت میں جلوہ گر ہوگئی اور انسانیت اس فیض اور خیر و برکت سے محروم ہوگئ جو اسلام لے کر آیا تھا ۔ جاری

Келесі