سنی مولوی کی شیعوں کےسٹیج پراتنی بڑی گستاخیqari liaqat ali faridi VS hanif qureshi mufti jamaluddin
ایک سنی مولوی کی شیعوں کے سٹیج پر اتنی بڑی گستاخی qari liaqat ali faridi VS mufti hanif qureshi Abut mufti jamaluddin baghdadi very most Heart touching Bayan by qari liaqat Ali faridi DR Ashraf Asif jalai
Пікірлер: 140
تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے پہلے پہرےدار سرکار سیدنا ابو طالب علیہ السلام کی ذات پر لاکھوں کروڑوں سلام
@zeezuannu3573
Жыл бұрын
Beshak Abu Talib wo han jino na Nabuwat sabal ka Ummat ko de
@zeezuannu3573
Жыл бұрын
Bilkul thk bhai ap na bola Hum sub nokar Janaba Abu Talib ka
@shabbirhussainhashmi9317
Жыл бұрын
@@zeezuannu3573 جزاک اللہ خیر اللہ کریم آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے آمین ثم آمین
@ilyasnawaz853
Жыл бұрын
Masha Allah ap Geo Shah Sahib
@MuhammadAmir-yr5nv
Жыл бұрын
Beshaq
قاری لیاقت علی فریدی اللہ پاک آپ کی زندگی میں برکت عطا فرمائے آمین
اللھم صلی علی محمد وآل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واعجل فراجھم ❤
حق سچ ھے کہ حضرت ابو طالب علیہ السلام پھلے مسلمان ھیں جن کی صحابیت پچاس سال پر محیط ھے ۔
حق ادا کر دیا آپ نے
Salam Ya Hazrat Abu Talib as madad
Qari liaqat sli mola skaamat rakhy ap ko
MashaAllah
ماشااللہ ماشااللہ اللہ اپ کو جزائے خیر دے اپ نے حق بیان کیا
Mashala
حافظ صاحب مولا حسین کےصدقے اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے آپ نے حق ادا کر دیا
ماشاءاللہ و تبارک اللہ واجرکم علی اللہ بحق علی ولی اللہ ❤
Molana sab humasha abad raha
Hazrat Abu Bakar RA Zindabad aur Hazrat Abu Talab As B Zinda bad
Masha Allah
Subhan Allah
MashAllah MashAllah
❤❤❤
Qari laiqat zbardast speech
بہت خوب
جو کرے سرکار ابو طالب کے امان پر شک میرے نزدیک اسکا کلمہ پڑھنا ہی حرام ھے
Shan e abu talab As zindabad
Nabio k bad sb se afzel bashar hazrat Abu Talib as hen
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
Ghalat
الم تعدنی آلا تعذبہم وانا فہیم و ہم یستغفرون۔ ,(. استغفار پر۔ ڈالا جائے۔ امت کو۔ ۔۔۔۔۔۔۔ الم تعدنی آلا تعذبہم وانا فہیم و ہم یستغفرون
Haq baat
Hazrat e Abu talib as ke dushman pa hazaro lakho karooro arboo baar laaanaaat beeshmaaar laaanaaat beeshmaaar laaanaaat beeshmaaar laaanaaat beeshmaaar laaanaaat beeshmaaar
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
جنابِ ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کہا تو تو ایک محتاج آدمی ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ محترم قارئینِ کرام : جس نے بڑی حقارت سے رشتہ دینے سے انکار کر دیا آج اسے کفیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے اگر جنابِ ابو طالب اتنے شفیق و مہربان اور کفیلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تھے تو تحقیر آمیز انداز میں رشتہ کیوں ٹھکرا دیا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی معاہدے کے وقت عبد ﷲ بن جدعان کے گھر میں موجود تھے ۔ چچا زبیر کے مرنے کے بعد اپنی متاہل (شادی شدہ) زندگی کا خیال آیا ۔ حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوطالب کو اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام دیا تھا ، جس پر ابوطالب نے کہا’’ بھتیجے ! مَیں بنو مخزوم کو زبان دے چُکا ہوں ۔ قریبی قرابت داری کی بنا پر اب اُنہیں منع کرنا مناسب نہ ہوگا ۔ (طبقات ابنِ سعد 343/8) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا جنابِ ابو طالب (عبدِ مناف) کے پاس اُمِّ ہانی کےلیے شادی کا پیغام بھیجا مگر جنابِ ابو طالب نے اپنے ماموں کے بیٹے ہبیرۃ بن ابی وہب سے نکاح کردیا اور بھتیجے کو جواب دے دیا ۔ (طبقاتِ ابن سعد، ج:۲، ص:۱۵۲)(تاریخِ طبری، الاصابہ،کتاب المجر،چشتی) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب اپنے جنابِ ابو طالب سے شکوہ کیا تو جنابِ ابو طالب نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہے ۔ بھتیجے ! ان لوگوں سے ہماری قرابتیں پہلے سے ہوتی آئی ہیں اور اشراف کا میل اشراف سے ہی ہوتا ہے مگر تو تو ایک محتاج آدمی ہے ۔ (طبقاتِ ابن سعد، تاریخِ طبری، الاصابہ) ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا جنابِ ابو طالب کی بڑی بیٹی تھیں ، آپ کا اصلی نام فاختہ تھا ، لیکن ابن اسحاق آپ کا نام ہند بتاتے ہیں ، آپ کو اپنے بیٹے ہانی کی نسبت سے ام ہانی کہا جاتا تھا ۔ روایتوں کےمطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُم ہانی سے شادی کرنا چاہتے تھے ، لیکن آپ کے چچا نے یہ سوچ کر آپ کو رشتہ دینے سے انکار کر دیا کہ جو آدمی اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ میری بیٹی کو کیا کھلائے گا ، لہٰذا انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ھبیرہ بن عبدالوہاب سے کر دی ۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے پھر ام ہانی سے شادی درخواست کی ، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ اس شادی کے بعد اپنے بچوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھ پائیں گی ۔ (ماخوذ : سیرۃ سبن اسحاق) جس شخصیت نے اپنے کسی بیٹے کی پرورش خود نہ کی ہو اور جنابِ ابو طالب کا یہی اشرافِ خاندانی داماد (ہبیرہ بن ابی وہب) اعلانِ نبوت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہجو بکتا رہا اور ہر غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل آتا رہا ۔ آخر فتحِ مکہ کے روز نجران کی طرف بھاگ گیا اور بحالتِ کفر کہیں مر گیا ۔ صحیح بخاری کتاب الاجارۃ حدیث:۴۶۳ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’ ﷲ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا کہ جس نے بکریاں نہ َ چرائی ہوں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا آپ نے بھی ؟ آپ نے فرمایا : نَعَمْ ! کُنْتُ اَرْعَاھَا عَلٰی قَرَارِیْطَ لِاَھْلِ مَکَّۃَ‘‘ ہاں ! میں اہلِ مکہ کی چند قیراط تنخواہ پر بکریاں َ چراتا تھا ۔ جن حضرات کے ذہنوں پر جنابِ ابوطالب کی کفالت والی فرضی روایات چھائی ہوئی ہیں ، اس حدیث کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ قراریط سے مراد سکّے نہیں بلکہ قراریط ایک جگہ کا نام ہے مگر امام بخاری علیہ الرحمہ نے اسے اُجرت کے باب میں نقل کیا ہے ۔ دوم اہلِ مکہ کی بکریاں چرانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے جبکہ کفالت چچا ابوطالب کی تسلیم کرتے ہیں؟ …… پھر بھی اگر کوئی مصر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت ابوطالب نے کی تو فقیر کا جواب ادباً یہ ہوگا کہ جنابِ ابوطالب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اہلِ مکہ کی بکریاں چروا کر اپنا اور اپنے اہل کا گزارہ کر رہے تھے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ابوطالب پر احسان ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ابوطالب کا ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے معدودے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا چچا ! آپ تو جانتے ہیں کہ میرا چچا ابوطالب تنگدست ہے ۔ کیوں نہ ہم اس سے ایک بیٹا لے کر اس بیٹے کی ذمہ داری اپنے سر لے لیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جعفر رضی اللہ عنہ کو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا ۔ طالب اور عقیل اس وقت جوان تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے ہوچکی تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے ۔ جنابِ ابو طالب چوں کہ کثیرالعیال اور مالی و معاشی تنگی سے نہایت پریشان تھے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے محبوب چچا کی تنگ دستی اور مفلسی سے متاثر ہوکر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ہمیں اس مصیبت و پریشاں حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہیے ۔ چناں چہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حسب ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی کفالت کی ذمے داری لی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہِ انتخاب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پسند فرمایا ۔ پھر سوچیۓ کفیل کس کا کون ہے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
Hazrat Allama Laiqat Fareedi Sahib Allah apka Salamat Rakhay
Jeeyu Qari shab Sada Salamat raha
Salam ya Hazret Abu Talab As
Zinat e islam chennel wala koi halali hy to riply karo
@alfarooq1997
11 ай бұрын
Jee bolo
Ameer e moawiya zindabad
Yeh khitab aehl sunat me hy
Sarkar e abu talib zindabaad Salam karorho abu talib pr
سلام یا سرکار ابو طالب
Kahan ka faazil
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
Lakhnao kaa
اسمیں کوئ شک نہی پہلے مومن حضرت ابو طالب بن عبدالمطلب ہیں
Pehla momin khud allah hai quran suratay alhashar almomin allah ka nam hai
Zikr e Abu Talib as jari rhy ga inshAllah
Mimber bi sunioun ka ha
بھائی یہ عالم نہیں نعت خواں سے مولوی بنا بس سن کے تقریر کرتے ہیں لیاقت علی فریدی
@qaririfatmahmood6734
Жыл бұрын
اچھا جی۔ کاروباری لوگ ھیں۔ اللہ اکبر کبیرا ۔
@AbdulJabbar-og8pg
Жыл бұрын
بغرت۔حے۔
@shabbirhussainhashmi9317
Жыл бұрын
حضرت علامہ مولانا قاری لیاقت علی فریدی صاحب زندہ باد جو مولانا کے خلاف بکو اس کر رہے ہیں وہ ان کے سامنے آنے کی ہمت کریں
@afzaalkhan82
Жыл бұрын
Tera baap bohet Barak alam hy
@syedsibtanabbasrizvi730
3 ай бұрын
لگتا ہے بھایی کی تپ رہی ہے
Ye kn
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
Aik sur wala khteeb ha Aalim nahi
Quran ma jis ko murtad kha gya hy kafir kha gya hy os ka diffa aik hrami e kr skta hy kon hy kafir jo Nabi saww ko jang ma choor kr bagh gya tha jis hramzady na nimaz e janaza e Rasool saww ma shrikt nhi ki the wohi hy ghasib munnafik kafir pak ashaab pr slaam or hrami munnafikeen pr allah ki lannat byshumarrr
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
Kazzab mukhtar saqfi par Lanat beshumar Aur tumhaara imam ghaaib bhi aisaa bhaga ha k Aaj tak Lout K nahi Aaya
@alfarooq1997
11 ай бұрын
کس کی بات کر رہا ہے ابو طالب علیہ السلام کی بات کر رہا ہے تو ۔۔۔۔۔
MUHAFIZ E RISALAT SARKAR E JANAB E ABU TALIB A.S ki shan e aqdas mai gustakhi karny waly har bad nasly mutfa e khabees par ALLAH KI LANAT or tamam lanat karny walo ki lanat ta qayamat beshumaaaarrr
@shabbirhussainhashmi9317
Жыл бұрын
Beshumaar unlimited Bundle data of Lannat
@shabbirhussainhashmi9317
Жыл бұрын
Salam Ya Sarkar E Hazret Abu Talab A s
Allama Qari Laqit Sahib zindabad
Lannat Lannat Dushman Sarkar E Abu Talab As
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
جنابِ ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کہا تو تو ایک محتاج آدمی ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ محترم قارئینِ کرام : جس نے بڑی حقارت سے رشتہ دینے سے انکار کر دیا آج اسے کفیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے اگر جنابِ ابو طالب اتنے شفیق و مہربان اور کفیلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تھے تو تحقیر آمیز انداز میں رشتہ کیوں ٹھکرا دیا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی معاہدے کے وقت عبد ﷲ بن جدعان کے گھر میں موجود تھے ۔ چچا زبیر کے مرنے کے بعد اپنی متاہل (شادی شدہ) زندگی کا خیال آیا ۔ حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوطالب کو اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام دیا تھا ، جس پر ابوطالب نے کہا’’ بھتیجے ! مَیں بنو مخزوم کو زبان دے چُکا ہوں ۔ قریبی قرابت داری کی بنا پر اب اُنہیں منع کرنا مناسب نہ ہوگا ۔ (طبقات ابنِ سعد 343/8) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا جنابِ ابو طالب (عبدِ مناف) کے پاس اُمِّ ہانی کےلیے شادی کا پیغام بھیجا مگر جنابِ ابو طالب نے اپنے ماموں کے بیٹے ہبیرۃ بن ابی وہب سے نکاح کردیا اور بھتیجے کو جواب دے دیا ۔ (طبقاتِ ابن سعد، ج:۲، ص:۱۵۲)(تاریخِ طبری، الاصابہ،کتاب المجر،چشتی) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب اپنے جنابِ ابو طالب سے شکوہ کیا تو جنابِ ابو طالب نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہے ۔ بھتیجے ! ان لوگوں سے ہماری قرابتیں پہلے سے ہوتی آئی ہیں اور اشراف کا میل اشراف سے ہی ہوتا ہے مگر تو تو ایک محتاج آدمی ہے ۔ (طبقاتِ ابن سعد، تاریخِ طبری، الاصابہ) ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا جنابِ ابو طالب کی بڑی بیٹی تھیں ، آپ کا اصلی نام فاختہ تھا ، لیکن ابن اسحاق آپ کا نام ہند بتاتے ہیں ، آپ کو اپنے بیٹے ہانی کی نسبت سے ام ہانی کہا جاتا تھا ۔ روایتوں کےمطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُم ہانی سے شادی کرنا چاہتے تھے ، لیکن آپ کے چچا نے یہ سوچ کر آپ کو رشتہ دینے سے انکار کر دیا کہ جو آدمی اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ میری بیٹی کو کیا کھلائے گا ، لہٰذا انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ھبیرہ بن عبدالوہاب سے کر دی ۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے پھر ام ہانی سے شادی درخواست کی ، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ اس شادی کے بعد اپنے بچوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھ پائیں گی ۔ (ماخوذ : سیرۃ سبن اسحاق) جس شخصیت نے اپنے کسی بیٹے کی پرورش خود نہ کی ہو اور جنابِ ابو طالب کا یہی اشرافِ خاندانی داماد (ہبیرہ بن ابی وہب) اعلانِ نبوت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہجو بکتا رہا اور ہر غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل آتا رہا ۔ آخر فتحِ مکہ کے روز نجران کی طرف بھاگ گیا اور بحالتِ کفر کہیں مر گیا ۔ صحیح بخاری کتاب الاجارۃ حدیث:۴۶۳ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’ ﷲ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا کہ جس نے بکریاں نہ َ چرائی ہوں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا آپ نے بھی ؟ آپ نے فرمایا : نَعَمْ ! کُنْتُ اَرْعَاھَا عَلٰی قَرَارِیْطَ لِاَھْلِ مَکَّۃَ‘‘ ہاں ! میں اہلِ مکہ کی چند قیراط تنخواہ پر بکریاں َ چراتا تھا ۔ جن حضرات کے ذہنوں پر جنابِ ابوطالب کی کفالت والی فرضی روایات چھائی ہوئی ہیں ، اس حدیث کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ قراریط سے مراد سکّے نہیں بلکہ قراریط ایک جگہ کا نام ہے مگر امام بخاری علیہ الرحمہ نے اسے اُجرت کے باب میں نقل کیا ہے ۔ دوم اہلِ مکہ کی بکریاں چرانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے جبکہ کفالت چچا ابوطالب کی تسلیم کرتے ہیں؟ …… پھر بھی اگر کوئی مصر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت ابوطالب نے کی تو فقیر کا جواب ادباً یہ ہوگا کہ جنابِ ابوطالب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اہلِ مکہ کی بکریاں چروا کر اپنا اور اپنے اہل کا گزارہ کر رہے تھے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ابوطالب پر احسان ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ابوطالب کا ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے معدودے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا چچا ! آپ تو جانتے ہیں کہ میرا چچا ابوطالب تنگدست ہے ۔ کیوں نہ ہم اس سے ایک بیٹا لے کر اس بیٹے کی ذمہ داری اپنے سر لے لیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جعفر رضی اللہ عنہ کو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا ۔ طالب اور عقیل اس وقت جوان تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے ہوچکی تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے ۔ جنابِ ابو طالب چوں کہ کثیرالعیال اور مالی و معاشی تنگی سے نہایت پریشان تھے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے محبوب چچا کی تنگ دستی اور مفلسی سے متاثر ہوکر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ہمیں اس مصیبت و پریشاں حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہیے ۔ چناں چہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حسب ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی کفالت کی ذمے داری لی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہِ انتخاب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پسند فرمایا ۔ پھر سوچیۓ کفیل کس کا کون ہے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
Hazrat abubakar 1
امام جلالی حق کی آواز ہیں انکی قیادت میں سنیوں کو متحد ہونا پڑے گا
@afzaalkhan82
Жыл бұрын
Wo lannti hy djali
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
Mola Ali razi Allah anho bhi iman e abi talib K qaail nahi Ghous Pak bhi qaail nahi data Ali hujvary bhi qaail nahi peer mahar Ali shah bhi iman e abi talib K qaail nahi Kia Ya hastian dajjali hain?
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
جنابِ ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کہا تو تو ایک محتاج آدمی ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ محترم قارئینِ کرام : جس نے بڑی حقارت سے رشتہ دینے سے انکار کر دیا آج اسے کفیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے اگر جنابِ ابو طالب اتنے شفیق و مہربان اور کفیلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تھے تو تحقیر آمیز انداز میں رشتہ کیوں ٹھکرا دیا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی معاہدے کے وقت عبد ﷲ بن جدعان کے گھر میں موجود تھے ۔ چچا زبیر کے مرنے کے بعد اپنی متاہل (شادی شدہ) زندگی کا خیال آیا ۔ حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوطالب کو اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام دیا تھا ، جس پر ابوطالب نے کہا’’ بھتیجے ! مَیں بنو مخزوم کو زبان دے چُکا ہوں ۔ قریبی قرابت داری کی بنا پر اب اُنہیں منع کرنا مناسب نہ ہوگا ۔ (طبقات ابنِ سعد 343/8) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا جنابِ ابو طالب (عبدِ مناف) کے پاس اُمِّ ہانی کےلیے شادی کا پیغام بھیجا مگر جنابِ ابو طالب نے اپنے ماموں کے بیٹے ہبیرۃ بن ابی وہب سے نکاح کردیا اور بھتیجے کو جواب دے دیا ۔ (طبقاتِ ابن سعد، ج:۲، ص:۱۵۲)(تاریخِ طبری، الاصابہ،کتاب المجر،چشتی) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب اپنے جنابِ ابو طالب سے شکوہ کیا تو جنابِ ابو طالب نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہے ۔ بھتیجے ! ان لوگوں سے ہماری قرابتیں پہلے سے ہوتی آئی ہیں اور اشراف کا میل اشراف سے ہی ہوتا ہے مگر تو تو ایک محتاج آدمی ہے ۔ (طبقاتِ ابن سعد، تاریخِ طبری، الاصابہ) ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا جنابِ ابو طالب کی بڑی بیٹی تھیں ، آپ کا اصلی نام فاختہ تھا ، لیکن ابن اسحاق آپ کا نام ہند بتاتے ہیں ، آپ کو اپنے بیٹے ہانی کی نسبت سے ام ہانی کہا جاتا تھا ۔ روایتوں کےمطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُم ہانی سے شادی کرنا چاہتے تھے ، لیکن آپ کے چچا نے یہ سوچ کر آپ کو رشتہ دینے سے انکار کر دیا کہ جو آدمی اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ میری بیٹی کو کیا کھلائے گا ، لہٰذا انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ھبیرہ بن عبدالوہاب سے کر دی ۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے پھر ام ہانی سے شادی درخواست کی ، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ اس شادی کے بعد اپنے بچوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھ پائیں گی ۔ (ماخوذ : سیرۃ سبن اسحاق) جس شخصیت نے اپنے کسی بیٹے کی پرورش خود نہ کی ہو اور جنابِ ابو طالب کا یہی اشرافِ خاندانی داماد (ہبیرہ بن ابی وہب) اعلانِ نبوت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہجو بکتا رہا اور ہر غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل آتا رہا ۔ آخر فتحِ مکہ کے روز نجران کی طرف بھاگ گیا اور بحالتِ کفر کہیں مر گیا ۔ صحیح بخاری کتاب الاجارۃ حدیث:۴۶۳ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’ ﷲ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا کہ جس نے بکریاں نہ َ چرائی ہوں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا آپ نے بھی ؟ آپ نے فرمایا : نَعَمْ ! کُنْتُ اَرْعَاھَا عَلٰی قَرَارِیْطَ لِاَھْلِ مَکَّۃَ‘‘ ہاں ! میں اہلِ مکہ کی چند قیراط تنخواہ پر بکریاں َ چراتا تھا ۔ جن حضرات کے ذہنوں پر جنابِ ابوطالب کی کفالت والی فرضی روایات چھائی ہوئی ہیں ، اس حدیث کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ قراریط سے مراد سکّے نہیں بلکہ قراریط ایک جگہ کا نام ہے مگر امام بخاری علیہ الرحمہ نے اسے اُجرت کے باب میں نقل کیا ہے ۔ دوم اہلِ مکہ کی بکریاں چرانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے جبکہ کفالت چچا ابوطالب کی تسلیم کرتے ہیں؟ …… پھر بھی اگر کوئی مصر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت ابوطالب نے کی تو فقیر کا جواب ادباً یہ ہوگا کہ جنابِ ابوطالب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اہلِ مکہ کی بکریاں چروا کر اپنا اور اپنے اہل کا گزارہ کر رہے تھے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ابوطالب پر احسان ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ابوطالب کا ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے معدودے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا چچا ! آپ تو جانتے ہیں کہ میرا چچا ابوطالب تنگدست ہے ۔ کیوں نہ ہم اس سے ایک بیٹا لے کر اس بیٹے کی ذمہ داری اپنے سر لے لیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جعفر رضی اللہ عنہ کو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا ۔ طالب اور عقیل اس وقت جوان تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے ہوچکی تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے ۔ جنابِ ابو طالب چوں کہ کثیرالعیال اور مالی و معاشی تنگی سے نہایت پریشان تھے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے محبوب چچا کی تنگ دستی اور مفلسی سے متاثر ہوکر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ہمیں اس مصیبت و پریشاں حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہیے ۔ چناں چہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حسب ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی کفالت کی ذمے داری لی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہِ انتخاب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پسند فرمایا ۔ پھر سوچیۓ کفیل کس کا کون ہے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
@syedaaa......4420
Жыл бұрын
سب سنی تمہارے اس باپ پر لعنت بیشمار بھیجتے ہیں ہم کیوں متحد ہوں اس یزید کی قیادت میں
@fidabukhariofficial4194
Жыл бұрын
بغض علی پاک کو اتحاد نہیں نفاق کہتے ہیں
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سنی نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ شیعہ کا سٹیج بھی نہیں تھا۔ تم بہت جھوٹے ٹائیٹل لگاتے ہو۔ پلیز ایسا نہیں کرو۔
@fidabukhariofficial4194
Жыл бұрын
جھوٹ ان کے چودہ سو سالوں پر محیط ہے۔ بنو امیہ کے دستر خوان سے نفاق کی نچڑی ہوئی ہڈیاں چبانے والے کیا جانیں سنیت کیا ہے اور حضرت ابو طالب ع کا مقام کیا ہے جو کلِ ایمان کا بھی باپ ہے
Ya tu mola ka hubdar ha
کھاں گے سنی اس مراسی کو لگام کیوں نیھں دیتے
@geminiqueen4891
Жыл бұрын
Tm marasi tmhri nasal marasi kutty
@fidabukhariofficial4194
Жыл бұрын
یہی تو سنی ہے۔ بغض ابو طالب سنیت نہیں منافقت ہے
@alfarooq1997
11 ай бұрын
سنی زندہ ہیں تجھے لگام ڈالیں گے ن شاءاللہ
حق جلالی سچ جلالی
جلالی ہرامی کو چاہیے کہ وہ حضرت علامہ مولانا قاری لیاقت علی فریدی صاحب مفتی محمد حنیف قریشی صاحب پیر سید جمال الدین بغدادی صاحب کے جوتے صاف کیا کرے
@shehzadali1069
Жыл бұрын
یہ جاہل بندہ ہے
@ilyasnawaz853
Жыл бұрын
Beshak Shah Sahib ap ne darust farmaya
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
PORY Ahl e sunnat iman e abi talib ki qaail Nahi Mola Ali razi Allah anho Ghous e Pak razi Allah anho Data Ali hujwary Rahmatullah Alaih peer mahar All shah Rahmatullah Alaih iman e abi talib K qaail nahi hain agar jalali ko haraami kah rahay Ho to yahi gaali tum in pak hastion ko they rahay Ho
@shabbirhussainhashmi9317
Жыл бұрын
@@KHANG-yz4rf وہ تو پکا ہرامی ہے جس نے سیدہ پاک سلام اللہ علیہا کے لئے لفظ خطا استعمال کیا باقی غوث پاک داتا صاحب سرکار قرآن پاک سے بڑھ کر نہیں ہے ایمان ابو طالب علیہ السلام پر قرآن کی آیات دلیل ہے نہ کہ داتا صاحب یا غوث پاک یا کوئی دجالی
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
@@shabbirhussainhashmi9317 Sab sa bara haraami to jalali na khatawar nahi kaha to na apni taraf Sayyeda ko khatawar kaha Khata aur khatawar ma boht farq ha Ahl e sunnat K nazdeek sirf Ambya aur farishtay masom hain Ahl e bait o sahaba nahi wo mahfoz Anil khata hain
Zennat islam walk harmazay begrto Sharm kro
Lanti logo jo pak abu talib ke shan jo bayan karay tum wo bura lagta
Jahel admen Kahan fazil ho ripe ki khater chuth bolte h.lahnat M M AKRAM Talagang
استغفرُاللہ ایس ملاں توں پچھو اگر سب نالوں پہلے کلمہ پڑھ لیا سی تے آخری ویلے کلمہ پڑھانے دی کوڑ کیوں پئی ۔۔عجیبو غریب مخلوقات ساڈے اسٹیجاں تے اگئیاں جنہاں نوں مسئلے دی نوعیت دا سی علم نئیں ۔۔۔
@alfarooq1997
11 ай бұрын
آ جا تجھے مسئلہ سمجھاؤں اچھی طرح سے ۔۔۔۔
Lannat ho yazeedi Asif jalali per
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
جنابِ ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کہا تو تو ایک محتاج آدمی ہے ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ محترم قارئینِ کرام : جس نے بڑی حقارت سے رشتہ دینے سے انکار کر دیا آج اسے کفیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے اگر جنابِ ابو طالب اتنے شفیق و مہربان اور کفیلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تھے تو تحقیر آمیز انداز میں رشتہ کیوں ٹھکرا دیا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی معاہدے کے وقت عبد ﷲ بن جدعان کے گھر میں موجود تھے ۔ چچا زبیر کے مرنے کے بعد اپنی متاہل (شادی شدہ) زندگی کا خیال آیا ۔ حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوطالب کو اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام دیا تھا ، جس پر ابوطالب نے کہا’’ بھتیجے ! مَیں بنو مخزوم کو زبان دے چُکا ہوں ۔ قریبی قرابت داری کی بنا پر اب اُنہیں منع کرنا مناسب نہ ہوگا ۔ (طبقات ابنِ سعد 343/8) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا جنابِ ابو طالب (عبدِ مناف) کے پاس اُمِّ ہانی کےلیے شادی کا پیغام بھیجا مگر جنابِ ابو طالب نے اپنے ماموں کے بیٹے ہبیرۃ بن ابی وہب سے نکاح کردیا اور بھتیجے کو جواب دے دیا ۔ (طبقاتِ ابن سعد، ج:۲، ص:۱۵۲)(تاریخِ طبری، الاصابہ،کتاب المجر،چشتی) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب اپنے جنابِ ابو طالب سے شکوہ کیا تو جنابِ ابو طالب نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہے ۔ بھتیجے ! ان لوگوں سے ہماری قرابتیں پہلے سے ہوتی آئی ہیں اور اشراف کا میل اشراف سے ہی ہوتا ہے مگر تو تو ایک محتاج آدمی ہے ۔ (طبقاتِ ابن سعد، تاریخِ طبری، الاصابہ) ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا جنابِ ابو طالب کی بڑی بیٹی تھیں ، آپ کا اصلی نام فاختہ تھا ، لیکن ابن اسحاق آپ کا نام ہند بتاتے ہیں ، آپ کو اپنے بیٹے ہانی کی نسبت سے ام ہانی کہا جاتا تھا ۔ روایتوں کےمطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُم ہانی سے شادی کرنا چاہتے تھے ، لیکن آپ کے چچا نے یہ سوچ کر آپ کو رشتہ دینے سے انکار کر دیا کہ جو آدمی اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہ میری بیٹی کو کیا کھلائے گا ، لہٰذا انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ھبیرہ بن عبدالوہاب سے کر دی ۔ فتح مکہ کے بعد آپ نے پھر ام ہانی سے شادی درخواست کی ، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ اس شادی کے بعد اپنے بچوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھ پائیں گی ۔ (ماخوذ : سیرۃ سبن اسحاق) جس شخصیت نے اپنے کسی بیٹے کی پرورش خود نہ کی ہو اور جنابِ ابو طالب کا یہی اشرافِ خاندانی داماد (ہبیرہ بن ابی وہب) اعلانِ نبوت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہجو بکتا رہا اور ہر غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقابل آتا رہا ۔ آخر فتحِ مکہ کے روز نجران کی طرف بھاگ گیا اور بحالتِ کفر کہیں مر گیا ۔ صحیح بخاری کتاب الاجارۃ حدیث:۴۶۳ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’ ﷲ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا کہ جس نے بکریاں نہ َ چرائی ہوں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا آپ نے بھی ؟ آپ نے فرمایا : نَعَمْ ! کُنْتُ اَرْعَاھَا عَلٰی قَرَارِیْطَ لِاَھْلِ مَکَّۃَ‘‘ ہاں ! میں اہلِ مکہ کی چند قیراط تنخواہ پر بکریاں َ چراتا تھا ۔ جن حضرات کے ذہنوں پر جنابِ ابوطالب کی کفالت والی فرضی روایات چھائی ہوئی ہیں ، اس حدیث کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ قراریط سے مراد سکّے نہیں بلکہ قراریط ایک جگہ کا نام ہے مگر امام بخاری علیہ الرحمہ نے اسے اُجرت کے باب میں نقل کیا ہے ۔ دوم اہلِ مکہ کی بکریاں چرانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے جبکہ کفالت چچا ابوطالب کی تسلیم کرتے ہیں؟ …… پھر بھی اگر کوئی مصر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت ابوطالب نے کی تو فقیر کا جواب ادباً یہ ہوگا کہ جنابِ ابوطالب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اہلِ مکہ کی بکریاں چروا کر اپنا اور اپنے اہل کا گزارہ کر رہے تھے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ابوطالب پر احسان ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ابوطالب کا ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے معدودے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا چچا ! آپ تو جانتے ہیں کہ میرا چچا ابوطالب تنگدست ہے ۔ کیوں نہ ہم اس سے ایک بیٹا لے کر اس بیٹے کی ذمہ داری اپنے سر لے لیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جعفر رضی اللہ عنہ کو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا ۔ طالب اور عقیل اس وقت جوان تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے ہوچکی تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے ۔ جنابِ ابو طالب چوں کہ کثیرالعیال اور مالی و معاشی تنگی سے نہایت پریشان تھے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے محبوب چچا کی تنگ دستی اور مفلسی سے متاثر ہوکر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ہمیں اس مصیبت و پریشاں حالی میں چچا کا ہاتھ بٹانا چاہیے ۔ چناں چہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حسب ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی کفالت کی ذمے داری لی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہِ انتخاب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پسند فرمایا ۔ پھر سوچیۓ کفیل کس کا کون ہے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
apna numbar bhi dhalo contct kise kare
O lahanti molvi. Jb Nabbi S.A.W ne Hazrat Abu Bakr Siddique R.A ko pehla Momin kaha to tu kyo fitna paida kr raha hy. Baqi sahaba ikram.R.A kab apna muqam hy.
@shabbirhussainhashmi9317
Жыл бұрын
کچھ حیا کرو یار
@KHANG-yz4rf
Жыл бұрын
@@shabbirhussainhashmi9317 Haya tum ma nahi kanjar
@shabbirhussainhashmi9317
Жыл бұрын
@@KHANG-yz4rf کنجر تم کنجر تیرا باپ کنجر تیرا جلالی ہرامی کنجر تیرے بنو امیہ
@sarfrazbaghela3418
Жыл бұрын
Abu talib as zidabab
@sarfrazbaghela3418
Жыл бұрын
Hk ya Ali as abu talib as zidabab
حضرت ابو طالب علیہ اسلام کے گھر سے اسلام کی تبلیغ شروع ہوئ خانہ کعبہ بھی بتوں سے بھرا پڑا تھا سب کفار کے گھروں میں بت تھے ایک واحد گھر ااولاد ابراھیم علیہ اسلام حضرت عبدالمطلب اور حضرت ابو طالب علیہ اسلام کا تھا حضرت ابو طالب علیہ اسلام کے گھر سے مومن بننے شروع ہوئے تم اپنی اور اپنے باپوں کی فکر کرو تم حضرت علی علیہ اسلام کے والد کی فکر کیوں کرتے ھو عقلمند اپنی فکر کرتا ہے بیو قوف دوسروں کی طرف دیکھتا ہے تم کو دوسروں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا ھم مطمعن ہیں تم کیوں پریشان ھو