ماشا ء اللہ بہت خوب اللہ آپ کو سلا مت رکھے اور ترقیات سے نوازے آمین ثم آمین یارب العالمین
@habibullahkhan40763 жыл бұрын
ماشاءاللہ بہت خوب ماشاءاللہ
@deenekedmatproduction49032 жыл бұрын
ماشاءاللّٰه بہت خوب اللہ تعالی اس سرچشمہ فکرِ ایمانی کی حفاظت فرمائے
@qarinumansakbi19732 жыл бұрын
ماشااللہ اللہ تعالی آپ کو خیروعافیت سے رکھےقاری بہت خوب بہت ہی عمدہ ترانہ
@mdafzalhussainqasmi62093 жыл бұрын
Masha allah allah madar e ilmi ko din duni raat jugni tarqqi se nawaze
@AbdurRahman-pj1lx3 жыл бұрын
Masha Allaha bahut Accha tarana
@AkbarAli-iz4vx2 жыл бұрын
Aap kee nath aap kee awaj me ❤️❤️👍
@mdaasifvip Жыл бұрын
ماشاءاللہ بہت بھاری کلام ہے آئے ایم امپریسڈ
@omarfaruque98273 жыл бұрын
مثلا بہت خوب
@saleemtaqi65152 жыл бұрын
سربكف سربلند دیوبند دیوبند 💖💖💖💖
@saquibreza1433 ай бұрын
Masha Allah ❤❤
@mohdhasim84773 жыл бұрын
Mashllha
@finegaming11553 жыл бұрын
Amazing
@konainofficial3 жыл бұрын
Masha allah bahut khub #BadrulKaunainOfficial
@naeemusmani44033 жыл бұрын
Masha Allah
@nuzhathosein8782 жыл бұрын
mashallah
@MOHAMMADSHAHNWAZMOHAMMADSHAHNW3 жыл бұрын
SUBAHANLLAH
@imdadullahansari45203 жыл бұрын
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
@zuberalam59353 жыл бұрын
ماشاءاللّٰه
@MdIrfan-mx1zp3 жыл бұрын
Masha alallah kiya trana
@nawazshah82813 жыл бұрын
Masha Allah bahut khub
@safwanazmiofficial81753 жыл бұрын
Masha Allah qari sahab
@alkamasiddiqi34722 жыл бұрын
MASAALLAH and SUBHANALLAH
@mdubaidullah23983 жыл бұрын
Masha Allah bahut khoob
@mohdusama31812 жыл бұрын
MashaAllah
@saleemtaqi65152 жыл бұрын
Mashallah
@mirzafaheem96293 жыл бұрын
ماشاءاللّه
@gulfambhaisani17603 жыл бұрын
ماشا ء اللہ
@mohdusama31812 жыл бұрын
SubhanAllah
@mujahidhasan32142 жыл бұрын
Masha Allah ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺 Allah Hamesa salaamat rakhe
@nizamshaikh39513 жыл бұрын
❤❤❤❤mashaallah..... 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
@abdullhameedshaikh25343 жыл бұрын
ماشاء الله بھت خوب اللہ تعالی مادر علمی دارالعلوم وقف دیوبند کے فیض کو تا قیامت جاری رکھے آمین ثم آ مین
@user-ky4gy1us8q3 жыл бұрын
Masha Allah 🌹🦋💐🥀🌹 🥀
@ansariansar31873 жыл бұрын
Subhan Allah masah Allah
@ArshadKhan-vh4we2 ай бұрын
ماشاءالله
@reyazahmedbatt76142 жыл бұрын
ماشاء اللّه
@shah50182 жыл бұрын
Masha allaah
@serajkuraishi79633 жыл бұрын
Masaallah
@khaledmahmood2023 Жыл бұрын
Alhamdulilah
@user-jv6hz9zn6z3 жыл бұрын
ماشاء اللہ بہت خوب اللہ آپ کی محنت کو قبول فرما
@mousman49873 жыл бұрын
ماشاء اللہ بہت خوب اللہ عمر میں برکت عطا فرمائے آمین
@minnatullahansari98553 жыл бұрын
ماشاءاللہ بہت خوب ترانہ اللہ تعالیٰ آپکو مزید ترقیات سے نوازیں آمین ثم آمین
@rajsthanipathan39762 жыл бұрын
MahshaAllah Allah Hamare Darul Uloom Deoband ko hamesa Salamat or Aabad Rakhe 🤲🤲❤️❤️❤️❤️
@omarfaruque98273 жыл бұрын
ما شاء اللہ
@kholilurrahman34622 жыл бұрын
মাসা আল্লাহ
@tosifkhantosifkhan10163 жыл бұрын
سبحان الله
@jamalashrafkhan32123 жыл бұрын
nici
@mdnishatahamadqasmi82473 жыл бұрын
آپ کا انداز سب سے اچھوتا اور نرالا ہوتا ہے، ماشاء اللہ، ترانہ ندوہ بھی اگر آپ کی شیریں زبان سے نکلتا تو کیا ہی اچھا ہوتا!!!
@indiannaatstudio
3 жыл бұрын
Inshaallah bahot jald
@laduusoni166
3 жыл бұрын
@@indiannaatstudio Me bhi chahta hu nadwa ka tarana aap jald banao
@laduusoni166
3 жыл бұрын
Bhai mujhe darul ulum ka tarana bahut pasand he lekin padhne Wala koi bhi dhhang ka nahi sust sust padhte he me to fir sunta hi nahi hu lekin tumhari aawaz me bahut hi khubsurat he Yakin mano me kitni bar sun chuka hu or kitna hi share kr chuka hu
@laeequenadvi47463 жыл бұрын
امام قاسم نانوتوی رحمہ پر پہلا عالمی سیمینار ٢٠--٢٢ مئی ٢٠٠٠ كو عالم اسلام کے عظیم دارالعلوم دیوبند کے بانی أمام محمد قاسم نانوتوی رحمہ کی حیات ، شخصیت ، خدمات شان کی فکر و نظر اور بر صغیر کے مسلمانوں کی دینی ، علمی اور اجتماعی زندگی پر ان کے دور رس اثرات کی تفہیم و تشریح کے لیے یہ عالمی سیمینار منعقد کی گیا تھا ۔ اس سیمینار کا انعقاد تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند ، دہلی نے کیا تھا ۔ بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز میں اس سیمینار کا انعقاد کی سخت ضرورت تھی تاکہ گزشتہ خدمات کا جائزہ لیا جائے اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کیا سکے ۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں ان دنوں دہلی میں تھا ۔ میں نے افتتاحی اجلاس اور دو دن ہمدرد یونیورسیٹی کے شاندار ہال میں منعقد ہونے والے دو روزہ سیمینار میں شرکت کی ۔ افتتاحی جلسہ دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں ہوا ۔ اسٹیڈیم دارالعلوم کے فارغین ، طلباء اور حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ سرکردہ علماء کرام اور دانشوروں نے اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے اس کانفرنس کو اکیسویں صدی کا تقاضا اور اہم ضرورت قرار دیا ۔ افتتاحی اجلاس میں مختلف مقررین کو مختلف موضوعات دیے گئے تھے ۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی کو تحریک ولی اللہی سرچشمہ تحریک دارالعلوم دیوبند ، مولانا انظر شاہ کشمیری کو تحریک دیوبندی ، مولانا وحید الدین خان کو تحریک مدارس ، مولانا ولی رحمانی کو دور حاضر میں فکر قاسمی کی اہمیت و افادیت اور مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کو علماء دیوبنداور دور حاضر کے چیلنج و تقاضے وغیرہ ۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بات کہی گئی کہ : ہندستان میں مسلم حکومت کے ختم ہوجانے اور انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ کی وجہ سے امام نانوتوی رحمہ سخت غم و اندوہ اور فکر و پریشانی میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ مسلم حکومت کے ختم ہوجانے کی وجہ سے ان کو برصغیر بر صغیر میں دین و شریعت کی حفاظت ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو بچانے کی فکر دامنگیر ہوگئی ۔ مسلمان مغلوب و محکوم ہوچکے تھے ۔ حالات بہت تشویشناک اور مستقبل پر خطر نظر آرہا تھا ۔ ان کے دل دردمند پر اس وقت کیا گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہیں اللہ نے دل دردمند دیا ہے اور جنہیں امہ مسلمہ کے دین و ایمان ، اسلامی شریعت اور اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں ۔ ایسے انتہائی پریشان کن اور تشویشناک حالات میں امام ناناوتی رحمہ نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی تھی ۔ یہ صرف ایک علمی درسگاہ نہیں تھی جہاں سے علم و عمل کے سوتے پھوٹتے ہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی تحریک کا بھی آغاز تھا ۔ دارالعلوم دیوبند کی اس عالمی تحریک نے دین و شریعت کی حفاظت ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور امہ مسلمہ کے اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے عظیم الشان تاریخی کردار ادا کیا ۔ مولانا نظام الدین رحمہ نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ مولانا قاسم نانوتوی تیرھویں صدی ہجری کے ایک ممتاز ، بالغ النظر عالمی دین اور عبقری شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے کہا کہ تحریک دارالعلوم دیوبند نے مختلف محاذوں پر امہ مسلمہ کی صحیح قیادت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیا اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے منصوبہ بند کوششیں کی ہیں ۔ مولانا محمد عبد اللہ مغیثی نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ آج سےتقریبا ڈیرھ صدی پہلے جن پر خطر حالات میں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ نے تحریک دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی تھی اس نےاحیاء اسلام اور احیاء امہ کے ساتھ گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں میں برصغیر ہند کے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو باقی رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ آج ہم صرف علاقائی اور عالمی طور ہر جہت سے انتہائی پر خطر حالات میں گھرے ہوئے ہیں ۔ ہمارے دین اور تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کی پوری تیاریاں کی جاچکی ہیں ۔ ہماری شریعت ، ہمارے مدارس و دینی مراکز اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس لیے ان پر خطر حالات کا شدید تقاضا ہے کہ ہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور درپیش حالات کا اتحاد و اتفاق سے مقابلہ کرنے کے لیے لائحہ تیار کرکے میدان عمل میں سرگرم عمل ہو جائیں ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.comہیک
@AamirAnsari-lp3bd5 ай бұрын
😮
@apseenkhan15210 ай бұрын
Ya Allah mere deoband madrsa ko hamesha salamat rakhna subhanallah masaallah alahmdulliha bahut pyari awaz hai bhai Shahab
@ehraralam797 Жыл бұрын
Hi
@niyazanwerofficial4853 жыл бұрын
Izhar asfi Sb ke bare main Kuchh kalam banao bhai AML KA Condider hsi Aimim ka
@SohelKhan-vr2sd Жыл бұрын
Di kanj
@niyazanwerofficial4853 жыл бұрын
Kishanganaj Kochadhaman
@mofizulhasan46803 жыл бұрын
Masallha Bhai ❤️❤️❤️❤️
@SohelKhan-vr2sd Жыл бұрын
Deuband ginda baad olow world mein hai
@mohdahmad753 жыл бұрын
قاری صاحب اپنا نمبر دو
@imdadullahansari45203 жыл бұрын
مولانا شبیر احمد صاحب کانمبر ہے کسیکےپاس پیلیز شیر کرے
@laeequenadvi47462 жыл бұрын
دینی مدارس کا نظام تعلیم و تربیت مدارس کا نظام تعلیم و تربیت ایک اہم موضوع ہے ۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لوگ آج بھی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔ جہاں تک اسلامی جامعات اور بڑے دینی مدارس کے نصاب تعلیم کا تعلق ہے تو صرف دینی نظام تعلیم و تربیت کے ماہرین ہی کو یہ حق یے کہ اس موضوع پر اظہار خیال کریں ۔ وہ ضرورت سمجھیں گے تو اس میں کچھ حذف و اضافہ کرسکتے ہیں ۔ جن لوگوں کا اس نظام تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، نہ انہیں اس کا کوئی تجربہ ہے اور نہ اس کے اصل مقصد سے انہیں کوئی دلچسپی اور اتفاق ہے ان کا اس میں دخل اندازی کرنا اور آئے دن مشورے دینا بہت غلط بات ہے ۔ جن لوگوں کا تعلق معاصر نظام تعلیم و تربیت سے ہے وہ وزارت تعلیم کو مشورہ دین کہ وہ نصاب تعلیم میں دینی مضامین کو بھی شامل کریں تاکہ کالج اور یونیورسیٹیوں کے طلباء دین و دنیا دونوں کی تعلیم سے بہرہ ور ہوسکیں ۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت میں ثنویت کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ یہ انتہائی جامع ، وسیع اور ہمہ جہت تھا ۔ ثنویت اہل یوروپ کی وجہ سے پیدا ہوئی ۔ انہوں نے اسلامی نظام تعلیم و تربیت سے اسلامی علوم کو خارج کر کے صرف سائنسی علوم کو پڑھنا اور پڑھانا شروع کیا جو ان کے یہاں آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا ۔ یہ علوم نہ " مغربی علوم " ہیں اور نہ ہی"جدید علوم "۔ یہ وہ علوم ہیں جنہیں انہوں نے اندلس کے کالجوں اور دارالعلوم (جامعات) میں پڑھ اور سیکھ کر جہالت کی تاریکی سے نکلنا شروع کیا تھا ۔ مسلمانوں میں جب علمی زوال آیا تو وہ ان سائنسی علوم سے دور ہوتے گئے اور ان کے نصاب تعلیم سے سائنسی علوم کم ہوتے گئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کی علمی حس مردہ ہوتی چلی گئی اور وہ علمی زوال کا شکار ہوکر علمی پسماندگی میں مبتلا ہوگئے ۔ ایسا کیوں ہوا اس کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔ انیسویں صدی میں جب یوروپی ممالک نے عالم اسلام پر یلغار کرکے اور ان پر غاصبانہ قبضہ کرکے انہیں اپنا محکوم بنالیا تو انہوں نے مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو بالکل نظرانداز کرکے اس نظام تعلیم کو نافذ کیا جو مسلمانوں سے ماخوذ تھا اور اب وہ " مغربی نظام تعلیم " اور " جدید علوم " ہوچکے ہیں ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ایک ایسا نظام تعلیم جس میں ثنویت نہ ہو جس طرح مسلمانوں کے قدیم نظام تعلیم تھا اور جس میں دین و دنیا کا جداگانہ تصور نہیں تھا اور جہاں کے مدارس ، کلیات اور جامعات سے اہل یوروپ تعلیم اور حریت فکر ونظر ، حقوق انسانی اور اظہار رائے کے تصورات سے آشنا ہوکر نکلے اور یوروپی ممالک واپس جاکر علمی اور حقوق انسانی کی تحریک چلائی ، جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ تاریک یوروپ روشنی کی طرف آنے لگا ۔ پندرھویں صدی عیسوی سے یوروپ میں " نشاہ ثانیہ " کی تحریک شروع ہوئی جس کے پیچھے یہود کا مفسدانہ اور مجرمانہ دماغ کام کر رہا تھا اور یہاں سے " عصر حاضر " شروع ہوا جس کے بارے میں علامہ اقبال رحمہ نے کہا ہے : عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش ان کے مقابلہ میں خلافت عثمانیہ مرور زمانہ کے ساتھ کمزور ہونے لگی اور یہود کی مسلسل سازش اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے بالآخر 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا ۔ اس کے ختم کرنے سے پہلے ہی جب یوروپی ممالک نے دیکھا کہ خلافت بالکل ناتواں ہوچکی ہے تو انہوں نے اس کے تحت جو مسلم ممالک تھے ان پر حملے شروع کردیے ۔ فرانس نے لیبیا پر 1897 ہی میں حملہ کردیا تھا ۔ اس طرح مختلف یوروپی ممالک نے مسلم ممالک کو تقسیم کرکے اپنے مستعمرات ( Colonies) میں شامل کرلیا ۔ اس طرح امہ مسلمہ پوری دنیا میں مغلوب ، محکوم ہوگئی ۔ انہوں اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے " جدید یوروپی نظام تعلیم و تربیت " کو نافذ کیا یعنی نصاب تعلیم سے دینی مضامین کو حقارت سے نکال دیا اور اسی کے مطابق مسلمانوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل اسلام سے دور ، بیزار اور لادین ہوگئی ۔ مشہور مسلم مفکر محمد قطب رحمہ نے اپنی تصنیف ' واقعنا المعاصر ' میں اس صورت حال پر تفصیل سے بحث کی ہے جو قابل مطالعہ ہے ۔ جب مسلم ممالک ان کی غلامی سے آزاد ہوئے تو انہوں نے ملک کی باگ ڈور اپنے تربیت کردہ اسلام بیزار نئی نسل کے حوالے کرگئے اس طرح مسلم ممالک اسی منہج پر کام کرتے رہے جو وہ قائم کر گئے تھے ۔ مسلم حکمران خواہ وہ عرب ہوں یا عجم ان کو کرسی اقتدار پر انہوں نے ہی بٹھایا ہے اس لیے وہ ان کے اشارے اور مرضی کے مطابق ہی کام کرتے رہتے ہین ۔ پورے مسلم ممالک میں اس صورت حال نے اسلام سے دور مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام کے درمیان جدائی پیدا کردی جس نے ان کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو بالکل ختم کردیا جو کسی ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہوتی ہے ۔ ایسے انتہائی پریشان کن حالات میں یہی ایک راستہ نظر آیا کہ دینی اور خالص اسلامی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جائین جس کی طرف رہنمائی شاہ ولی اللہ رحمہ کرگئے تھے ۔ امام قاسم نانوتوی رحمہ نے اسی سمت میں قدم آگے قدم بڑھایا اور دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد دینی نظام تعلیم و تربیت کو باقی رکھنا اور اس کی حفاظت تھی ۔ یہ صرف ایک دینی علمی درسگاہ نہیں تھی بلکہ یہ ایک دینی ، فکری اور اجتماعی تحریک کا بھی آغاز تھا ۔ اس کے بعد ہند میں دارالعلوم ندوة العلماء اور دیگر دینی ادارے بنیادی طور ہر اسی خاص مقصد کے لیے قائم کیے گئے ۔ جن کا واحد مقصد قرآن و احادیث پر مبنی نظام تعلیم و تربیت قائم رکھنا اور چلانا تھا ۔ ا ن دینی مدارس میں مسلمانوں کے صرف %4 فیصد وہ بچے جاتے ہیں جن میں انگریزی اسکولوں کے مصارف برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی ہے ۔ اب مسلم حکمرانوں کے آقاؤں کو مسلم ممالک کے ان دینی مدارس سے خطرہ نظر آنے لگا ہے اس لیے انہوں نے منصوبہ بنایا کہ دینی درسگاہوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے کر ان پر قید و بند عائد کیے جائیں اور ان کے نصاب تعلیم کو مسخ کردیا جائے ۔ دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی سازش کو میں نے اپنے مضمون " دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی تجویز ، ایک سازش ہے فقط " میں لکھا ہے ۔ ہمارے علماء کرام اور بزرگان دین بڑی قربانیاں دے کر اس نظام تعلیم و تربیت کی حفاظت کی ہے ۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے اس کی حفاظت کرنا اوراس کو قائم رکھنا ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے ۔ ہم اسلام دشمن طاقتوں کو ان کی خفیہ سازشوں اور چالوں میں ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global And Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com ۔
@Partnereafcc-df-f-bdc-ef-ke7ih3 жыл бұрын
Maslke ala hajrat jindabad 1000 molanao ko ikttha kar lo sabit ho jayega sare jmat wale or devbandi wahabi siya ahle hadis bohre kadyani sab ke sab munafik ( chhupe huve kafir ) he aj tak kisi munafik ne kafiro ke mukable ki junge nhi jiti ab tak ki sari junge panjtane pak aur gose pak aur khwaja g n ke gulamo ne kafiro ke mukable ki junge jiti he ye sab drudo salam padne wale hi iman wale hote he baki sab kalma padne wale munafik he aj se hi panjtane pak aur gose pak aur khwaja g n ke gulam ban jao kafiro se bhi jit jaoge or kyamat me mijane amaal par bhi jit jaoge insaallah
@indiannaatstudio
3 жыл бұрын
Apna Phone Number do
@indiannaatstudio
3 жыл бұрын
Aaj faisla ho hi jaye
@indiannaatstudio
3 жыл бұрын
😁
@saleemsaleem4855
3 жыл бұрын
Masha allah
@allahuakbar5149
3 жыл бұрын
gulam sirf allah ke he samjhe aur aage se bhi sun lena
@mosarofali91603 жыл бұрын
Alhamdulillah
@laeequenadvi47462 жыл бұрын
امہ مسلمہ کی موجودہ نازک صورت حال آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ : " عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " نہیں تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حالت سیلاب مین پانی کی سطح پر بہنے والےجھاگ کی طرح ہوگی جو کمزور ہوتی ہے اور اس کی کوئی طاقت نہیں ہوتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ بھی بتادی کہ اس وقت تمہارے تعداد زیادہ ہوگی لیکن ان کے اندر دنیا کی محبت گھر کر جائے گی اور موت کا خوف پیدا جائے گا ، مسلممان ڈرپوک اور بزدل ہوجائین گے ۔ یعنی امہ مسلمہ کا زوال اخلاقی ہوگا ۔ مرور زمانہ کے ساتھ امہ مسلمہ کے اخلاق میں غیر معمولی گراوٹ پیدا ہوجائے گی ۔ آج ہم اس کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالت اب بھی دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر ہے ۔ ایسا احساس خلاف حقیقت بھی نہیں ، لیکن اس سے بھی بڑی اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں ہمارا اخلاقی زوال زیادہ بڑا اور نہایت افسوسناک ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے ہیں ۔ ہم جن احکام الہی اور حلال و حرام سے واقف ہیں ، دوسری قومیں ان کو نہیں جانتی ہیں ۔ ہمارے پاس زندگی کا مکمل ضابطہ اورنظام حیات ہے لیکن ہم نے قرآنی احکام اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ ہمارے اوپر قرآن کا یہ قول صادق آتا ہے : يا رب إن قومى هذا اتخذوا القرآن مهجورا اے میرے رب ! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے ( پس پشت ڈال رکھا ہے) ۔ اخلاقی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ امہ مسلمہ کی موجودہ دور میں تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی صورت حال ۔ اسلام دین اللہ ہے ۔ اسلامی تہذیب اسی اساس پر قائم یے اور اسلامی ثقافت اسی سرچشمہ سے پھوٹ کر نکلی اور برگ و بار لائی ہے ، مسلمانون کا معاشرتی نطام اسی پر قائم ہونا چاہیے ۔ در حقیقت امہ مسلمہ کی کامیابی اس دین کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے لیکن کیا امہ مسلمہ کی زندگی ان تینوں پہلووں سے اس پر استوار ہے ؟ اسلام کا سارا اخلاقی نظام جو اس کے تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی نظام سے عبارت ہے شکست و ریخت دوچار ہے ۔ ان کی اخلاقی حالت ہر اعتبار سے سخت زبوں حالی کا شکار ہے ۔ وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر یہ موضوع تفصیل طلب یے اور موجودہ دور میں امہ مسلمہ جس نازک اور کربناک صورت حال سے گزر رہی ہے ، اس کی وجہ سے دل بہت پریشان اور فکر مند ہے ۔ اللہ تعالی اس صورت حال سے امہ کو باہر نکالے اور اس کی دستگیری فرمائے ۔ امین ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@mufti.mohammad.anas.saqueby3 жыл бұрын
عمل بہتر کون سا ہے دیکھ کر یا پوچھ کر kzread.info/dash/bejne/gpyMtKSrg9TLnrg.html
@laeequenadvi47462 жыл бұрын
" قوموں کے عروج و زوال کا قانون " ( یو ٹیوب میں اس موضوع پر جاوید غامدی کے جواب کے حوالے سے ) امہ مسلمہ کا عروج و زوال دین سے وابستہ رہنے میں ہے ۔ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں علامہ اقبال رحمہ دین سے وابستگی کا مطلب ہے قرآن و سنت سے ذہنی ، فکری اور علمی وابستگی ۔ قرآن سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ امہ مسلمہ علوم و فنون یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف پوری توجہ کرے اور دوسری قوموں پر اسے تفوق و برتری حاصل ہو ۔ وہ زمانے معزز تھے مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر علامہ اقبال رحمہ قرآن کی تعلیمات عالمی اور آفاقی ہیں ۔ ان میں دین و دنیا کی جدائی کا سرے سے کوئی تصور نہیں ہے ۔ اسلام میں یہ بحث بالکل لغو اور عبث ہے ۔ یہ تصور خارجی اور اعداء کی سازش کا نتیجہ ہے ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امہ میں دوئی کی یہ بحث کیسے شروع ہوئی ؟ جدید تعلیم یافتہ لوگ اس کا الزام علماء پر لگاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ دوئی ( ثنویت) یہود و نصاری کی سازش کی وجہ سے امہ مسلمہ میں در آئی ہے ۔ اس کا مقصد امہ مسلمہ کو زوال سے دوچار کرنا تھا ۔ امہ کے خلاف یہود و نصاری کی مسلسل منصوبہ بند خفیہ سازشوں نے اس کے اندر دین و دنیا کی جدائی کا تصور پیدا کردیا ، جس کے نتیجے میں امہ زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی ۔ اہل یوروپ نے جب اٹھارویں اور انیسویں صدی میں عالم اسلام پر حملہ کرنا شروع کیا اس وقت تک ہمارے نصاب تعلیم میں ثنویت نہیں تھی ۔ نصاب تعلیم میں دونوں علوم شامل تھے ۔ اہل یوروپ نے علوم و فنون اندلس کے علمی اداروں میں سیکھے لیکن انہوں نے اپنے نصاب سے دینی علوم کو خارج کردیا اور صرف سماجی اور سائنسی علوم کو رکھا ۔ نصاب تعلیم میں عملی طور پر یہاں سے دوئی اور جدائی پیدا ہوئی ۔ مصر پر جب انہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تو وہاں رائج نصاب تعلیم کو خارج کرکے وہ نصاب تعلیم کو رائج کیا جس میں دینی علوم نہیں تھے اور جو جدید اور سائنسی علوم کہلائے حالانکہ یہ علوم انہوں نے اندلس میں مسلمانوں ہی سے سیکھے تھے ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے اگر مصر کی تاریخ نصاب تعلیم کا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے کہ کس طرح نصاب تعلیم میں یہ ثنویت پیدا کی گئی تھی ۔ محمد قطب رحمہ اس کا الزام خاص طور پر محمد علی پاشا پر لگایا ہے ۔ ہمارے بزرگان دین نے جب دیکھا کہ اب وہ نصاب تعلیم رائج کردیا گیا ہے جو اسلامی تعلیمات تعلیم و تربیت سے بالکل عاری ہے تو وہ مجبور ہوئے کہ علیحدہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے اور مراکز قائم کریں تاکہ دینی علوم و اسلامی ثقافت کی حفاظت کی جاسکے اور اسے قائم و دائم رکھا جاسکے ۔ اگر اس مختصر تحریر کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھ لیں تو مسلمانوں کو دین و دنیا کی دوئی یا نصاب تعلیم میں ثنویت کی اصل حقیقت سمجھ میں آجائے گی ۔ یہ امہ ایک امہ وسط ہے ۔ اس میں افراط اور تفریط نہیں ہے اعتدال اس امہ کی بہت بڑی خصوصیت اور امتیاز ہے ۔ اب حکومتی ملازمتیں اسی نام نہاد " جدید اور عصری " تعلیم یافتہ کو ملنے لگیں اور دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ان سے محروم ہوگئے ۔ یہ جدید تعلیم و تربیت سے آراستہ طبقہ علماء کی مخالفت میں کمربستہ ہوگیا اور آج تک ہے ۔ اللہ ان سے عام مسلمانوں اور دینی مدارس کی حفاظت فرمائے ۔ یہ مختصر تحریر ہے ۔ اللہ اس کو مفید بنائے اورمسلمانوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
@faizanmalik7980 Жыл бұрын
Best tarana kzread.info/dash/bejne/eq2YuNVmhL3Fos4.html
Пікірлер: 122
ماشاءاللہ بہت خوبصورت ترانہ ہے
Mein Sunni hoon magar ab deobnd samil hona chahta hoon mein aapse gujaris karta hoon thanks yourself
KON.KON.HAZRAT.DARUL.U.LOOM.SE.FARIG.HE.LIKE.KARE.JO.SUN.RAHE.HE
ماشاءاللہ بہت خوب جناب مولانا
ماشاءاللہ
ماشاءاللہ بہت خوب
❤❤❤❤ماشاءاللہ 🥰🥰🥰
Subhanallah olmaiy deoband zindabad from pakistan allah hindustan kay musalmano ke ghaib sai maddad farmah ameen
@TBTChannel-gmail
3 ай бұрын
Mashallah. Allah aap ki hifazat farmaye
Ilm ki doulat is idare se milta hai bahut khobsoorat nazam
اللہ مادر علمی کو بہت زیادہ ترقی عطا فرمائے آمین
واہ بہت بہت اچھا ماشاءاللہ زبردست مولانا شبیر احمد صاحب قاسمی مظفرپوری مبارکباد پیش کرتا ہوں حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی مظفرپوری
@IqbalKhan-ow4tc
3 жыл бұрын
Mashaallah
🌻ماشااللہ 🌻🌻🌻 🌻🌻ماشاالله 🌻🌻 🌻ماشااللہ 🌻🌻🌻 🌻🌻🌻ماشاالله 🌻 🌻ماشااللہ 🌻🌻🌻 🌻🌻ماشاالله 🌻🌻 🌻🌻🌻ماشاالله 🌻 🌻ماشاالله 🌻🌻🌻
ماشاء اللہ
Masha Allah bahoot khuab qari Sahab
ماشا ء اللہ بہت خوب اللہ آپ کو سلا مت رکھے اور ترقیات سے نوازے آمین ثم آمین یارب العالمین
ماشاءاللہ بہت خوب ماشاءاللہ
ماشاءاللّٰه بہت خوب اللہ تعالی اس سرچشمہ فکرِ ایمانی کی حفاظت فرمائے
ماشااللہ اللہ تعالی آپ کو خیروعافیت سے رکھےقاری بہت خوب بہت ہی عمدہ ترانہ
Masha allah allah madar e ilmi ko din duni raat jugni tarqqi se nawaze
Masha Allaha bahut Accha tarana
Aap kee nath aap kee awaj me ❤️❤️👍
ماشاءاللہ بہت بھاری کلام ہے آئے ایم امپریسڈ
مثلا بہت خوب
سربكف سربلند دیوبند دیوبند 💖💖💖💖
Masha Allah ❤❤
Mashllha
Amazing
Masha allah bahut khub #BadrulKaunainOfficial
Masha Allah
mashallah
SUBAHANLLAH
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ماشاءاللّٰه
Masha alallah kiya trana
Masha Allah bahut khub
Masha Allah qari sahab
MASAALLAH and SUBHANALLAH
Masha Allah bahut khoob
MashaAllah
Mashallah
ماشاءاللّه
ماشا ء اللہ
SubhanAllah
Masha Allah ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺 Allah Hamesa salaamat rakhe
❤❤❤❤mashaallah..... 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
ماشاء الله بھت خوب اللہ تعالی مادر علمی دارالعلوم وقف دیوبند کے فیض کو تا قیامت جاری رکھے آمین ثم آ مین
Masha Allah 🌹🦋💐🥀🌹 🥀
Subhan Allah masah Allah
ماشاءالله
ماشاء اللّه
Masha allaah
Masaallah
Alhamdulilah
ماشاء اللہ بہت خوب اللہ آپ کی محنت کو قبول فرما
ماشاء اللہ بہت خوب اللہ عمر میں برکت عطا فرمائے آمین
ماشاءاللہ بہت خوب ترانہ اللہ تعالیٰ آپکو مزید ترقیات سے نوازیں آمین ثم آمین
MahshaAllah Allah Hamare Darul Uloom Deoband ko hamesa Salamat or Aabad Rakhe 🤲🤲❤️❤️❤️❤️
ما شاء اللہ
মাসা আল্লাহ
سبحان الله
nici
آپ کا انداز سب سے اچھوتا اور نرالا ہوتا ہے، ماشاء اللہ، ترانہ ندوہ بھی اگر آپ کی شیریں زبان سے نکلتا تو کیا ہی اچھا ہوتا!!!
@indiannaatstudio
3 жыл бұрын
Inshaallah bahot jald
@laduusoni166
3 жыл бұрын
@@indiannaatstudio Me bhi chahta hu nadwa ka tarana aap jald banao
@laduusoni166
3 жыл бұрын
Bhai mujhe darul ulum ka tarana bahut pasand he lekin padhne Wala koi bhi dhhang ka nahi sust sust padhte he me to fir sunta hi nahi hu lekin tumhari aawaz me bahut hi khubsurat he Yakin mano me kitni bar sun chuka hu or kitna hi share kr chuka hu
امام قاسم نانوتوی رحمہ پر پہلا عالمی سیمینار ٢٠--٢٢ مئی ٢٠٠٠ كو عالم اسلام کے عظیم دارالعلوم دیوبند کے بانی أمام محمد قاسم نانوتوی رحمہ کی حیات ، شخصیت ، خدمات شان کی فکر و نظر اور بر صغیر کے مسلمانوں کی دینی ، علمی اور اجتماعی زندگی پر ان کے دور رس اثرات کی تفہیم و تشریح کے لیے یہ عالمی سیمینار منعقد کی گیا تھا ۔ اس سیمینار کا انعقاد تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند ، دہلی نے کیا تھا ۔ بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز میں اس سیمینار کا انعقاد کی سخت ضرورت تھی تاکہ گزشتہ خدمات کا جائزہ لیا جائے اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کیا سکے ۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں ان دنوں دہلی میں تھا ۔ میں نے افتتاحی اجلاس اور دو دن ہمدرد یونیورسیٹی کے شاندار ہال میں منعقد ہونے والے دو روزہ سیمینار میں شرکت کی ۔ افتتاحی جلسہ دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں ہوا ۔ اسٹیڈیم دارالعلوم کے فارغین ، طلباء اور حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ سرکردہ علماء کرام اور دانشوروں نے اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے اس کانفرنس کو اکیسویں صدی کا تقاضا اور اہم ضرورت قرار دیا ۔ افتتاحی اجلاس میں مختلف مقررین کو مختلف موضوعات دیے گئے تھے ۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی کو تحریک ولی اللہی سرچشمہ تحریک دارالعلوم دیوبند ، مولانا انظر شاہ کشمیری کو تحریک دیوبندی ، مولانا وحید الدین خان کو تحریک مدارس ، مولانا ولی رحمانی کو دور حاضر میں فکر قاسمی کی اہمیت و افادیت اور مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کو علماء دیوبنداور دور حاضر کے چیلنج و تقاضے وغیرہ ۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بات کہی گئی کہ : ہندستان میں مسلم حکومت کے ختم ہوجانے اور انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ کی وجہ سے امام نانوتوی رحمہ سخت غم و اندوہ اور فکر و پریشانی میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ مسلم حکومت کے ختم ہوجانے کی وجہ سے ان کو برصغیر بر صغیر میں دین و شریعت کی حفاظت ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو بچانے کی فکر دامنگیر ہوگئی ۔ مسلمان مغلوب و محکوم ہوچکے تھے ۔ حالات بہت تشویشناک اور مستقبل پر خطر نظر آرہا تھا ۔ ان کے دل دردمند پر اس وقت کیا گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہیں اللہ نے دل دردمند دیا ہے اور جنہیں امہ مسلمہ کے دین و ایمان ، اسلامی شریعت اور اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں ۔ ایسے انتہائی پریشان کن اور تشویشناک حالات میں امام ناناوتی رحمہ نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی تھی ۔ یہ صرف ایک علمی درسگاہ نہیں تھی جہاں سے علم و عمل کے سوتے پھوٹتے ہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی تحریک کا بھی آغاز تھا ۔ دارالعلوم دیوبند کی اس عالمی تحریک نے دین و شریعت کی حفاظت ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور امہ مسلمہ کے اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے عظیم الشان تاریخی کردار ادا کیا ۔ مولانا نظام الدین رحمہ نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ مولانا قاسم نانوتوی تیرھویں صدی ہجری کے ایک ممتاز ، بالغ النظر عالمی دین اور عبقری شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے کہا کہ تحریک دارالعلوم دیوبند نے مختلف محاذوں پر امہ مسلمہ کی صحیح قیادت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیا اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے منصوبہ بند کوششیں کی ہیں ۔ مولانا محمد عبد اللہ مغیثی نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ آج سےتقریبا ڈیرھ صدی پہلے جن پر خطر حالات میں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ نے تحریک دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی تھی اس نےاحیاء اسلام اور احیاء امہ کے ساتھ گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں میں برصغیر ہند کے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو باقی رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ آج ہم صرف علاقائی اور عالمی طور ہر جہت سے انتہائی پر خطر حالات میں گھرے ہوئے ہیں ۔ ہمارے دین اور تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کی پوری تیاریاں کی جاچکی ہیں ۔ ہماری شریعت ، ہمارے مدارس و دینی مراکز اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اس لیے ان پر خطر حالات کا شدید تقاضا ہے کہ ہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور درپیش حالات کا اتحاد و اتفاق سے مقابلہ کرنے کے لیے لائحہ تیار کرکے میدان عمل میں سرگرم عمل ہو جائیں ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.comہیک
😮
Ya Allah mere deoband madrsa ko hamesha salamat rakhna subhanallah masaallah alahmdulliha bahut pyari awaz hai bhai Shahab
Hi
Izhar asfi Sb ke bare main Kuchh kalam banao bhai AML KA Condider hsi Aimim ka
Di kanj
Kishanganaj Kochadhaman
Masallha Bhai ❤️❤️❤️❤️
Deuband ginda baad olow world mein hai
قاری صاحب اپنا نمبر دو
مولانا شبیر احمد صاحب کانمبر ہے کسیکےپاس پیلیز شیر کرے
دینی مدارس کا نظام تعلیم و تربیت مدارس کا نظام تعلیم و تربیت ایک اہم موضوع ہے ۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لوگ آج بھی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔ جہاں تک اسلامی جامعات اور بڑے دینی مدارس کے نصاب تعلیم کا تعلق ہے تو صرف دینی نظام تعلیم و تربیت کے ماہرین ہی کو یہ حق یے کہ اس موضوع پر اظہار خیال کریں ۔ وہ ضرورت سمجھیں گے تو اس میں کچھ حذف و اضافہ کرسکتے ہیں ۔ جن لوگوں کا اس نظام تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، نہ انہیں اس کا کوئی تجربہ ہے اور نہ اس کے اصل مقصد سے انہیں کوئی دلچسپی اور اتفاق ہے ان کا اس میں دخل اندازی کرنا اور آئے دن مشورے دینا بہت غلط بات ہے ۔ جن لوگوں کا تعلق معاصر نظام تعلیم و تربیت سے ہے وہ وزارت تعلیم کو مشورہ دین کہ وہ نصاب تعلیم میں دینی مضامین کو بھی شامل کریں تاکہ کالج اور یونیورسیٹیوں کے طلباء دین و دنیا دونوں کی تعلیم سے بہرہ ور ہوسکیں ۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت میں ثنویت کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ یہ انتہائی جامع ، وسیع اور ہمہ جہت تھا ۔ ثنویت اہل یوروپ کی وجہ سے پیدا ہوئی ۔ انہوں نے اسلامی نظام تعلیم و تربیت سے اسلامی علوم کو خارج کر کے صرف سائنسی علوم کو پڑھنا اور پڑھانا شروع کیا جو ان کے یہاں آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا ۔ یہ علوم نہ " مغربی علوم " ہیں اور نہ ہی"جدید علوم "۔ یہ وہ علوم ہیں جنہیں انہوں نے اندلس کے کالجوں اور دارالعلوم (جامعات) میں پڑھ اور سیکھ کر جہالت کی تاریکی سے نکلنا شروع کیا تھا ۔ مسلمانوں میں جب علمی زوال آیا تو وہ ان سائنسی علوم سے دور ہوتے گئے اور ان کے نصاب تعلیم سے سائنسی علوم کم ہوتے گئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کی علمی حس مردہ ہوتی چلی گئی اور وہ علمی زوال کا شکار ہوکر علمی پسماندگی میں مبتلا ہوگئے ۔ ایسا کیوں ہوا اس کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔ انیسویں صدی میں جب یوروپی ممالک نے عالم اسلام پر یلغار کرکے اور ان پر غاصبانہ قبضہ کرکے انہیں اپنا محکوم بنالیا تو انہوں نے مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو بالکل نظرانداز کرکے اس نظام تعلیم کو نافذ کیا جو مسلمانوں سے ماخوذ تھا اور اب وہ " مغربی نظام تعلیم " اور " جدید علوم " ہوچکے ہیں ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ایک ایسا نظام تعلیم جس میں ثنویت نہ ہو جس طرح مسلمانوں کے قدیم نظام تعلیم تھا اور جس میں دین و دنیا کا جداگانہ تصور نہیں تھا اور جہاں کے مدارس ، کلیات اور جامعات سے اہل یوروپ تعلیم اور حریت فکر ونظر ، حقوق انسانی اور اظہار رائے کے تصورات سے آشنا ہوکر نکلے اور یوروپی ممالک واپس جاکر علمی اور حقوق انسانی کی تحریک چلائی ، جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ تاریک یوروپ روشنی کی طرف آنے لگا ۔ پندرھویں صدی عیسوی سے یوروپ میں " نشاہ ثانیہ " کی تحریک شروع ہوئی جس کے پیچھے یہود کا مفسدانہ اور مجرمانہ دماغ کام کر رہا تھا اور یہاں سے " عصر حاضر " شروع ہوا جس کے بارے میں علامہ اقبال رحمہ نے کہا ہے : عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش ان کے مقابلہ میں خلافت عثمانیہ مرور زمانہ کے ساتھ کمزور ہونے لگی اور یہود کی مسلسل سازش اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے بالآخر 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا ۔ اس کے ختم کرنے سے پہلے ہی جب یوروپی ممالک نے دیکھا کہ خلافت بالکل ناتواں ہوچکی ہے تو انہوں نے اس کے تحت جو مسلم ممالک تھے ان پر حملے شروع کردیے ۔ فرانس نے لیبیا پر 1897 ہی میں حملہ کردیا تھا ۔ اس طرح مختلف یوروپی ممالک نے مسلم ممالک کو تقسیم کرکے اپنے مستعمرات ( Colonies) میں شامل کرلیا ۔ اس طرح امہ مسلمہ پوری دنیا میں مغلوب ، محکوم ہوگئی ۔ انہوں اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے " جدید یوروپی نظام تعلیم و تربیت " کو نافذ کیا یعنی نصاب تعلیم سے دینی مضامین کو حقارت سے نکال دیا اور اسی کے مطابق مسلمانوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل اسلام سے دور ، بیزار اور لادین ہوگئی ۔ مشہور مسلم مفکر محمد قطب رحمہ نے اپنی تصنیف ' واقعنا المعاصر ' میں اس صورت حال پر تفصیل سے بحث کی ہے جو قابل مطالعہ ہے ۔ جب مسلم ممالک ان کی غلامی سے آزاد ہوئے تو انہوں نے ملک کی باگ ڈور اپنے تربیت کردہ اسلام بیزار نئی نسل کے حوالے کرگئے اس طرح مسلم ممالک اسی منہج پر کام کرتے رہے جو وہ قائم کر گئے تھے ۔ مسلم حکمران خواہ وہ عرب ہوں یا عجم ان کو کرسی اقتدار پر انہوں نے ہی بٹھایا ہے اس لیے وہ ان کے اشارے اور مرضی کے مطابق ہی کام کرتے رہتے ہین ۔ پورے مسلم ممالک میں اس صورت حال نے اسلام سے دور مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام کے درمیان جدائی پیدا کردی جس نے ان کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو بالکل ختم کردیا جو کسی ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہوتی ہے ۔ ایسے انتہائی پریشان کن حالات میں یہی ایک راستہ نظر آیا کہ دینی اور خالص اسلامی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جائین جس کی طرف رہنمائی شاہ ولی اللہ رحمہ کرگئے تھے ۔ امام قاسم نانوتوی رحمہ نے اسی سمت میں قدم آگے قدم بڑھایا اور دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد دینی نظام تعلیم و تربیت کو باقی رکھنا اور اس کی حفاظت تھی ۔ یہ صرف ایک دینی علمی درسگاہ نہیں تھی بلکہ یہ ایک دینی ، فکری اور اجتماعی تحریک کا بھی آغاز تھا ۔ اس کے بعد ہند میں دارالعلوم ندوة العلماء اور دیگر دینی ادارے بنیادی طور ہر اسی خاص مقصد کے لیے قائم کیے گئے ۔ جن کا واحد مقصد قرآن و احادیث پر مبنی نظام تعلیم و تربیت قائم رکھنا اور چلانا تھا ۔ ا ن دینی مدارس میں مسلمانوں کے صرف %4 فیصد وہ بچے جاتے ہیں جن میں انگریزی اسکولوں کے مصارف برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی ہے ۔ اب مسلم حکمرانوں کے آقاؤں کو مسلم ممالک کے ان دینی مدارس سے خطرہ نظر آنے لگا ہے اس لیے انہوں نے منصوبہ بنایا کہ دینی درسگاہوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے کر ان پر قید و بند عائد کیے جائیں اور ان کے نصاب تعلیم کو مسخ کردیا جائے ۔ دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی سازش کو میں نے اپنے مضمون " دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی تجویز ، ایک سازش ہے فقط " میں لکھا ہے ۔ ہمارے علماء کرام اور بزرگان دین بڑی قربانیاں دے کر اس نظام تعلیم و تربیت کی حفاظت کی ہے ۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے اس کی حفاظت کرنا اوراس کو قائم رکھنا ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے ۔ ہم اسلام دشمن طاقتوں کو ان کی خفیہ سازشوں اور چالوں میں ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global And Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com ۔
Maslke ala hajrat jindabad 1000 molanao ko ikttha kar lo sabit ho jayega sare jmat wale or devbandi wahabi siya ahle hadis bohre kadyani sab ke sab munafik ( chhupe huve kafir ) he aj tak kisi munafik ne kafiro ke mukable ki junge nhi jiti ab tak ki sari junge panjtane pak aur gose pak aur khwaja g n ke gulamo ne kafiro ke mukable ki junge jiti he ye sab drudo salam padne wale hi iman wale hote he baki sab kalma padne wale munafik he aj se hi panjtane pak aur gose pak aur khwaja g n ke gulam ban jao kafiro se bhi jit jaoge or kyamat me mijane amaal par bhi jit jaoge insaallah
@indiannaatstudio
3 жыл бұрын
Apna Phone Number do
@indiannaatstudio
3 жыл бұрын
Aaj faisla ho hi jaye
@indiannaatstudio
3 жыл бұрын
😁
@saleemsaleem4855
3 жыл бұрын
Masha allah
@allahuakbar5149
3 жыл бұрын
gulam sirf allah ke he samjhe aur aage se bhi sun lena
Alhamdulillah
امہ مسلمہ کی موجودہ نازک صورت حال آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ : " عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " نہیں تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حالت سیلاب مین پانی کی سطح پر بہنے والےجھاگ کی طرح ہوگی جو کمزور ہوتی ہے اور اس کی کوئی طاقت نہیں ہوتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ بھی بتادی کہ اس وقت تمہارے تعداد زیادہ ہوگی لیکن ان کے اندر دنیا کی محبت گھر کر جائے گی اور موت کا خوف پیدا جائے گا ، مسلممان ڈرپوک اور بزدل ہوجائین گے ۔ یعنی امہ مسلمہ کا زوال اخلاقی ہوگا ۔ مرور زمانہ کے ساتھ امہ مسلمہ کے اخلاق میں غیر معمولی گراوٹ پیدا ہوجائے گی ۔ آج ہم اس کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالت اب بھی دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر ہے ۔ ایسا احساس خلاف حقیقت بھی نہیں ، لیکن اس سے بھی بڑی اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں ہمارا اخلاقی زوال زیادہ بڑا اور نہایت افسوسناک ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے ہیں ۔ ہم جن احکام الہی اور حلال و حرام سے واقف ہیں ، دوسری قومیں ان کو نہیں جانتی ہیں ۔ ہمارے پاس زندگی کا مکمل ضابطہ اورنظام حیات ہے لیکن ہم نے قرآنی احکام اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ ہمارے اوپر قرآن کا یہ قول صادق آتا ہے : يا رب إن قومى هذا اتخذوا القرآن مهجورا اے میرے رب ! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے ( پس پشت ڈال رکھا ہے) ۔ اخلاقی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ امہ مسلمہ کی موجودہ دور میں تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی صورت حال ۔ اسلام دین اللہ ہے ۔ اسلامی تہذیب اسی اساس پر قائم یے اور اسلامی ثقافت اسی سرچشمہ سے پھوٹ کر نکلی اور برگ و بار لائی ہے ، مسلمانون کا معاشرتی نطام اسی پر قائم ہونا چاہیے ۔ در حقیقت امہ مسلمہ کی کامیابی اس دین کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے لیکن کیا امہ مسلمہ کی زندگی ان تینوں پہلووں سے اس پر استوار ہے ؟ اسلام کا سارا اخلاقی نظام جو اس کے تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی نظام سے عبارت ہے شکست و ریخت دوچار ہے ۔ ان کی اخلاقی حالت ہر اعتبار سے سخت زبوں حالی کا شکار ہے ۔ وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر یہ موضوع تفصیل طلب یے اور موجودہ دور میں امہ مسلمہ جس نازک اور کربناک صورت حال سے گزر رہی ہے ، اس کی وجہ سے دل بہت پریشان اور فکر مند ہے ۔ اللہ تعالی اس صورت حال سے امہ کو باہر نکالے اور اس کی دستگیری فرمائے ۔ امین ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
عمل بہتر کون سا ہے دیکھ کر یا پوچھ کر kzread.info/dash/bejne/gpyMtKSrg9TLnrg.html
" قوموں کے عروج و زوال کا قانون " ( یو ٹیوب میں اس موضوع پر جاوید غامدی کے جواب کے حوالے سے ) امہ مسلمہ کا عروج و زوال دین سے وابستہ رہنے میں ہے ۔ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں علامہ اقبال رحمہ دین سے وابستگی کا مطلب ہے قرآن و سنت سے ذہنی ، فکری اور علمی وابستگی ۔ قرآن سے وابستگی کا تقاضا ہے کہ امہ مسلمہ علوم و فنون یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف پوری توجہ کرے اور دوسری قوموں پر اسے تفوق و برتری حاصل ہو ۔ وہ زمانے معزز تھے مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر علامہ اقبال رحمہ قرآن کی تعلیمات عالمی اور آفاقی ہیں ۔ ان میں دین و دنیا کی جدائی کا سرے سے کوئی تصور نہیں ہے ۔ اسلام میں یہ بحث بالکل لغو اور عبث ہے ۔ یہ تصور خارجی اور اعداء کی سازش کا نتیجہ ہے ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امہ میں دوئی کی یہ بحث کیسے شروع ہوئی ؟ جدید تعلیم یافتہ لوگ اس کا الزام علماء پر لگاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ دوئی ( ثنویت) یہود و نصاری کی سازش کی وجہ سے امہ مسلمہ میں در آئی ہے ۔ اس کا مقصد امہ مسلمہ کو زوال سے دوچار کرنا تھا ۔ امہ کے خلاف یہود و نصاری کی مسلسل منصوبہ بند خفیہ سازشوں نے اس کے اندر دین و دنیا کی جدائی کا تصور پیدا کردیا ، جس کے نتیجے میں امہ زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی ۔ اہل یوروپ نے جب اٹھارویں اور انیسویں صدی میں عالم اسلام پر حملہ کرنا شروع کیا اس وقت تک ہمارے نصاب تعلیم میں ثنویت نہیں تھی ۔ نصاب تعلیم میں دونوں علوم شامل تھے ۔ اہل یوروپ نے علوم و فنون اندلس کے علمی اداروں میں سیکھے لیکن انہوں نے اپنے نصاب سے دینی علوم کو خارج کردیا اور صرف سماجی اور سائنسی علوم کو رکھا ۔ نصاب تعلیم میں عملی طور پر یہاں سے دوئی اور جدائی پیدا ہوئی ۔ مصر پر جب انہوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تو وہاں رائج نصاب تعلیم کو خارج کرکے وہ نصاب تعلیم کو رائج کیا جس میں دینی علوم نہیں تھے اور جو جدید اور سائنسی علوم کہلائے حالانکہ یہ علوم انہوں نے اندلس میں مسلمانوں ہی سے سیکھے تھے ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے اگر مصر کی تاریخ نصاب تعلیم کا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے کہ کس طرح نصاب تعلیم میں یہ ثنویت پیدا کی گئی تھی ۔ محمد قطب رحمہ اس کا الزام خاص طور پر محمد علی پاشا پر لگایا ہے ۔ ہمارے بزرگان دین نے جب دیکھا کہ اب وہ نصاب تعلیم رائج کردیا گیا ہے جو اسلامی تعلیمات تعلیم و تربیت سے بالکل عاری ہے تو وہ مجبور ہوئے کہ علیحدہ دینی تعلیم و تربیت کے ادارے اور مراکز قائم کریں تاکہ دینی علوم و اسلامی ثقافت کی حفاظت کی جاسکے اور اسے قائم و دائم رکھا جاسکے ۔ اگر اس مختصر تحریر کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھ لیں تو مسلمانوں کو دین و دنیا کی دوئی یا نصاب تعلیم میں ثنویت کی اصل حقیقت سمجھ میں آجائے گی ۔ یہ امہ ایک امہ وسط ہے ۔ اس میں افراط اور تفریط نہیں ہے اعتدال اس امہ کی بہت بڑی خصوصیت اور امتیاز ہے ۔ اب حکومتی ملازمتیں اسی نام نہاد " جدید اور عصری " تعلیم یافتہ کو ملنے لگیں اور دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ان سے محروم ہوگئے ۔ یہ جدید تعلیم و تربیت سے آراستہ طبقہ علماء کی مخالفت میں کمربستہ ہوگیا اور آج تک ہے ۔ اللہ ان سے عام مسلمانوں اور دینی مدارس کی حفاظت فرمائے ۔ یہ مختصر تحریر ہے ۔ اللہ اس کو مفید بنائے اورمسلمانوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
Best tarana kzread.info/dash/bejne/eq2YuNVmhL3Fos4.html
ماشاءاللہ بہت خوب
ماشاءاللہ
ماشاء اللہ
Masha Allah bahut khub
Mashallah
Masha Allah
Masha Allah ❤
ماشاءاللّٰه
MashaAllah
Hi
@indiannaatstudio
Жыл бұрын
Hello
ماشاء اللہ بہت خوب
ماشاءاللہ بہت خوب
ماشاءاللہ
Masha allah
ماشالللہ
Masha allah
ماشاءاللہ
Masha allah
ماشاءاللہ
Masha Allah
@parveshbeg2153
Жыл бұрын
Bahut khoob